اقبال اور عاکف ۔ 6

اقبال اور عاکف کے کلام میں نظریہ تقدیر کی مماثلتیں

216641
اقبال اور عاکف ۔ 6

"اقبال اورعاکف " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ آج ہم آپ سے تقدیر کے موضوع پر اقبال اور عاکف کے خیالات کے بارے میں بات کریں گے۔ 19 ویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں مغربی افکار کی اشاعت نے اسلام کے خلاف ایک منفی روّیہ پروان چڑھایا ۔ مغربیت کے زیر اثر جن اسلامی افکار و عقائد کو ان کی اصلی روح سے الگ کر کے بالکل برعکس مفہوم دیا گیا ان میں سے ایک مسئلہ قضاء و قدر ہے۔ مسلمانوں کے زوال کا سبب عام طور پر اس مسئلہ قضاء و قدر کو ٹھہرایا گیا جس کا درحقیقت اسلام سے کوئی ربط نہیں تھا بلکہ جسے اس دور کے پہ درپہ مصائب کے باعث عظیم الشان ماضی کے بعد ایک پسماندہ اور غیر یقینی حال کا سامنا کرنے پر عوام و خواص نے اپنی طرف سے اختراع کر لیا تھا۔ یہ توکل، اسلامی توکل نہیں بلکہ اپنی مسکینی کاہلی اور بے عملی کو توکل کا تقدیر کا نام دے کر مذہب میں پناہ ڈھونڈنے کی ایک کوشش تھی۔


اقبال کے ہاں تقدیر کا مروّج تصور کہ جسے قسمت کہا جاتا ہے کہیں نظر نہیں آتا کیوں کہ اگر اس تصور تقدیر کو تسلیم کر لیا جائے تو اقبال کے نظریہ خودی کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اقبال کا تصور
تقدیر قرآن سے اخذ کردہ ہے کہ جس کے مطابق یہ کائنات آدم کی کارگاہ ہے جس میں اسے اپنے جملہ امکانات اور قویٰ کو بروئے کار لانا ہے۔ انہوں نے اپنی نظم "روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے " میں انسان کے اختیار کو یوں بیان کیا ہے۔


ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے ایک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تیری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ


اقبال کے نزدیک یہ جہاں اور اس میں موجود ہر چیز مستقل اور مسلسل شکل میں ارتقاء و کمال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہی اس جہاں کی فطرت کہ جس میں انسان کو بسایا گیا ہے۔ یہ جہاں انسان کا تربیت کدہ بھی ہے اور تجربہ گاہ بھی۔ لہذا یہاں ہر فرد آدم خود اپنا ذمہ دار ہے۔ پسند و ناپسند کا مالک ہے، صاحب نظر و ارادہ ہے اور انتخاب و اختیار کی صلاحیت سے بہرہ مند ہے۔ اگر وہ بیدار ہے اور تعمیر ذات کے لئے سرگرم ہے تو اس کی حیثیت کچھ اور ہے لیکن اگر وہ غافل ہے اور کم ہمتی و ضعف کا مظاہرہ کرتا ہے تو محروم رہتا ہےاقبال اسے بزبان زمانہ یو ں بیان کرتے ہیں۔


ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب ، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ
نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ


حضرت علامہ نے تقدیر کی اس تعبیر سے کہ جسے عرف عام میں قسمت کہا جاتا ہے سخت اختلاف کیاہے۔ تقدیر کی اس مروج تعبیر کا مفہوم تو یہ ہوا کہ انسان کو جیسا بنا کر بھیج دیا گیا وہ ویسا ہی رہے گا یعنی جو مقدر ہے وہ تو ہو کر رہے گا سعی و سرگرمی بے سود ہے۔ نہ حال سنوارا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل یہ وہ کیفیت ہے جسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہونا قرار دیا جائے گا اور اسی کیفیت کا پیدا کردہ وہ رویہ تھا کہ مسلم ملت "تن بہ تقدیر ہو بیٹھ رہی اور مغرب کی مادہ پرست قوموں نے اٹھ کر ان کا منصب سنبھال لیا۔


اقبال کے نزدیک اگر افراد معاشرہ اپنی جگہ پست ہمت اور کج بیں ہیں تو پورا معاشرہ پست ہمت اور کج بیں ہو گا کیوں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ افراد کارویہ تو کچھ اور ہو لیکن پورے معاشرے کا انداز کچھ اورہو۔ تقریباً ایک ہی رویہ ہر شعبے میں کام کرتا ہے اور اسی حاوی رویے کے مطابق اس معاشرے کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر اکثریت معیاری افراد کی ہو تو اس میں ایک تعداد نااہل افراد کی بھی کھپ جاتی ہے لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا حاوی عنصر زوال پذیر اور غیر معیاری ہو اور وہ قلیل تعدادکے قابل افراد کے باعث فطرت کی جانب سے عائد کردہ اصولی سزا اور عقوبت سے بچ جائے۔ اقبال فرماتے ہیں۔


فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف


حضرت علامہ نے ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والی اقوام کو اسی نیم مردہ حالت میں دیکھا اور چونکہ وہ براعظم پاک و ہند کے مسلمانوں کو بہت قریب سے دیکھ رہے تھے لہذا ان کی "تن بہ تقدیر"صورتحال انہیں براہ راست اذیت دیتی تھی۔ لہذا طنزاًفرماتے ہیں


بگو ہندی مسلماں را کہ خوش باش
بہشتے فی سبیل اللہ ہم ہست


یعنی ہندی مسلمان کو خوشخبری سنا دو کہ ایک جنت وہ بھی ہے جو خیرات کے طور پر دی جائے گی۔ مطلب یہ کہ اگر ہاتھ ہلائے بغیر روشن اور مسرت بخش مستقبل کا تصور دل میں پال رہے ہو تو جان لو کہ یہاں "لیس للانسان الاماسعیٰ" کا اصول کارفرما ہے ۔ یہاں خوشیاں کمائی جاتی ہیں۔ فرماتے ہیں


افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیرکے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

عاکف بھی اس دور کے تصور تقدیر سے اقبال ہی کی طرح مضطرب نظر آتے ہیں ان کے نزدیک اس دور کے منفی توکل و قدر کی وجہ شدید درجے کی مایوسی و ناامیدی ہے جو ایک شاندار کل گزارنے کے بعد ایک مفلوک الحال آج میں قدم رکھنے کے باعث اور پے در پے شدائد و مصائب کا سامنا کرنے کے باعث ملت میں پیدا ہوئی آپ کے نزدیک مایوسی ایک ایسی دلدل ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ "عزم" کے عنوان سے نظم میں لکھتے ہیں۔


مایوسی کی کوئی انتہا نہیں اگر ایک دفعہ اس میں مبتلا ہو گئے تو
ایسی تباہی میں مبتلا ہو جاو گے کہ ابد تک چھٹکارا نہ پا سکو گے


1913 کا سال جنگ بلقان کا سال ہے کہ جس نے ملت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ کل کے فرش نشین آج کے حکم چلانے والے بن بیٹھے تھے لیکن ایسے حوصلہ شکن مناظر کے مقابل بھی عاکف ملت کے سکتہ زدہ وجود کو متحرک کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔
فرماتے ہیں۔


اے جیتی جاگتی میت کہ تمھارا سر تمھارے دونوں ہاتھوں میں پڑا ہے
کچھ تو حرکت کرو۔۔۔۔ ہاتھ بھی تمھارے ہیں اور سر بھی تمھارا
حس نہیں، حرکت نہیں کیا لاش بن گئے ہو
تم مجھے حیران کر رہے ہو تم ایسے تو نہ تھے۔


لیکن اس حالت پر ہر دو طبقات یعنی صاحب حکم و اقتدار طبقہ اور عوام دونوں اس قدر قانع ہو گئے تھے کہ طے شدہ سوچ سے رتی بھر ادھر ادھر ہو کر سوچنا اور راہِ نجات تلاش کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ناکامیوں زوال اور بربادیوں کو تقدیر کا نام دے کر ایک ایسے توکل کو اپنے اوپر طاری کر لیا تھا کہ جو ان کی تاویلات کو تو شرعی رنگ کیا دیتا خود ہی فکر اسلامی سے باہر تھا۔
عاکف کہتے ہیں۔


پہلے زمرے کو تشکیل دینے والے بیچارے عوام
اگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں تو یہ اپنی میٹھی نیند کو جاری رکھیں
یہ جب آج کے نصیب کو حلق میں ڈال لیتے ہیں تو
"کل" کیا ہے اسے نہیں جانتے اور پہلو بدل کر لیٹ جاتے ہیں۔
حکومت کا تختہ الٹ جائے یا وطن قبر میں ڈال دیا جائے
ان کو کوئی پروا نہیں کیوں کہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔
جبکہ دوسرے گروہ کو تشکیل دینے والی جماعت
زندگی سے مایوس لوگ ہیں کہ ناامیدی میں پھنس کر رہ گئے ہیں
اور کہتے ہیں کہ "نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے کچھ بھی کر لو فضول ہے"
یہ کہہ کر انہوں نے اپنے خرقہ کو سر تک کھینچ رکھا ہے۔

تقدیر کے موضوع پر اقبال اور عاکف کی فکری مماثلتوں پر ہم آپ سے بات کرنا جاری رکھیں گے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں