کوچۂ فن و ادب - 02

2014ءکے ادبی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اُردو ادب کی منڈی میں اُتارچڑھاؤکا رحجان رہا۔غزل کے بھاﺅ میں تیزی دیکھنے میں آئی اورنظم وافسانے کی قیمتیں مندی کا شکار رہیں

187025
کوچۂ فن و ادب - 02

2014ءکے ادبی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اُردو ادب کی منڈی میں اُتارچڑھاؤکا رحجان رہا۔غزل کے بھاﺅ میں تیزی دیکھنے میں آئی اورنظم وافسانے کی قیمتیں مندی کا شکار رہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹوں کی طرح ملکی حالات و واقعات کے اثرات ادبی منڈیوں پر مرتب نہیں ہوتے۔سیاستدانوں کے جلسے ، جلوس اوردھرنے اپنی جگہ۔ادیبوں ، شاعروں کی چوپالیں الگ لگتی ہیں،جہاں غزلیں اپنی ہی دُھن پررقص کرتی ہیں اور نظمیں”بیلے ڈانس“ پیش کرتی ہیں۔کہیں کہیںکچھ ڈرائنگ روم کلب بھی ہیں جہاں سمجھ میں نہ آنے والی مغربی موسیقی پرنثری نظموں کا ”ڈسکو ناچ“ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔نثری نظم کی شاعرہ ڈاکٹر تنویرانجم کا خیال ہے کہ انیس ناگی سے لے کرقمرجمیل تک اور عذرا عباس سے لے سارا شگفتہ تک جتنی بھی نثری نظمیں لکھی گئی ہیں ان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں شاعری کی نمایاں صنف نثری نظم ہو گی۔
اگرچہ سالِ رفتہ کے دوران کوئی قابلِ ذکر کتاب شائع نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود شاعروں اورادیبوں کو حکومت ِ پاکستان کی طرف سے تمغہ ہائے حسن کارکردگی اور کمالِ فن ایوارڈ ضرور ملے ہیں۔گویا جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں۔ ایک تمغہ تو ہمارے انتظار حسین کو حکومت ِ فرانس نے بھی عطا کیا ہے، جس پر ظفراقبال خاصے چراغ پا ہوئے اوریہ بے محل سوال کر ڈالا کہ معلوم نہیں موصوف کہ یہ ایوارڈ ان کے کسی افسانے پر ملا ہے یا ناول پر؟
ظفراقبال اورانتظار حسین کے درمیان ”چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد“ والی ہلکی پھلکی نوک جھونک کے ساتھ ساتھ امسال ایک دلچسپ بحث غزل اور نظم کے حوالے سے ستیہ پال آنند کی پاکستان آمد پر شروع ہوئی۔ستیہ پال نظم کے شاعر ہیں اور غزل کو کسی کھیت کی مولی نہیں سمجھتے۔وہ یہاں وہاں اپنے اعزاز میں برپا ہونے والی محفلوں میںبیچاری غزل پرخوب گرجتے برستے رہے۔جس کے جواب میں ظفراقبال نے غزل کا دفاع کرتے ہوئے نظم کو ایک درآمدی پودے سے تشبیہ دی جسے غزل کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھنے کے بجائے اس نامانوس آب و ہوا میں پنپنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ابھی کچھ اور وقت درکارہے اور ایک وقت آئے گا جب غزل کا خوف اس کے دل سے نکل جائے گا۔ظفراقبال نے لگے ہاتھوں ستیہ پال کے اس دماغی خلل کو پیرانہ سالی کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ عمر کے ایک حصے میں آکر غزل قاری کے لیے غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے۔
ستیہ پال آنند بھی خاموش بیٹھنے والے نہیں تھے انہوں نے شدید غصے کے عالم میں فیس بک کی دیوار پر نہ صرف ظفراقبال کوبھی ان کی عمر یاد دلائی بلکہ پاکستانی و ہندوستانی نظم نگاروں کی اکثریت کو اپنا خایہ بردار قرار دے دیا۔ستیہ پال کی اس وال چاکنگ پران کے کسی ممدوح کی جبیں پر عرقِ انفعال کاایک قطرہ بھی نمودار نہیں ہوا لیکن ستیہ پال آنند کے دیرینہ دوست نصیر احمد ناصر نے ”میں شرمندہ ہوں“ کے عنوان سے اس کا بھرپور جواب دیا۔ نصیراحمد ناصر نے لکھا کہ ”ڈاکٹر صاحب سے بصدادب عرض ہے کہ یہاں کوئی ان کا ”خایہ بردار“ تو کجاحاشیہ بردار بھی نہیں ہے۔یہاں ان کو جو مقام اور عزت حاصل ہے اس کا سبب اردو سے ان کی محبت ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ایک کالم کے جواب میں انہوں نے پاکستان سے سرکاری و غیر سرکاری طور پر ملنے والی پذیرائی، محبت اور مہمان نوازی و دوست نوازی کوبیک جنبشِ قلم ”خایہ بردار“ کہہ کر مجھے ہی نہیں سب پاکستانیوں، باالخصوص نظم نگاروں کو شرمندگی اور حیرت سے دوچار کر دیا ہے۔غزل اور ظفر اقبال کے ساتھ ان کا جو معاملہ ہے وہ ان کے درمیان ادبی مکالمہ رہے تو بہتر ہے۔
اس طرح کے مباحث اگر واقعتا ¿ ادبی مکالموں کی شکل اختیار کر لیں جیسا کہ کبھی نقوش، فنون، اوراق اور سیپ میں سال ہا سال تک شائع ہونے والے ادبی و تحقیقی مضامین میں ہوتا تھا تو نوواردانِ ادب کابھلا ہو سکتا ہے ۔لیکن بدقسمتی سے ہماری ساری علمیت اور دانشوری اخباری کالموں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔سال ِ رفتہ میں ہونے والی عالمی ادبی کانفرنسوں کا احوال اُٹھا کر دیکھ لیجیے ۔مقالے پڑھنے والے ادیبوں اور دانشوروں کی فہرست پر نظر ڈالیے کہیں آپ کو پروفیسر سحرانصاری ایساجیدنقاد، شکیل عادل زادہ ایسے زبان و بیان پر دسترس رکھنے والے ادیب اور فہمیدہ ریاض ایسی باکمال شاعرہ و عالمہ مسندِ فضیلت پر دکھائی نہیں دیں گے ۔سبب اس کا یہ ہے کہ آپ تینوں کسی اخبار میں کالم نہیں لکھتے۔
کراچی لٹریچر فیسٹول ہو، آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی عالمی اردو کانفرنس ہو، اسلام آباد لٹریچر فیسٹول ہو یا لاہور میںہونے والی الحمراءادبی کانفرنس ۔منتظمین کی مجبوری بن گئی ہے کہ ان ہی ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ محفل سجائی جائے جو انجمن آرائی کو عالم آرائی میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔
سال ِ رفتہ کو دیکھا جائے یا اس سے پہلے کے ادوار پرنظر دوڑائی جائے۔بات دراصل یہ ہے کہ شعر و ادب کے دیوانِ خاص میں شہرتوں اور عظمتوں کی مسندیں ساتھ ساتھ رکھی ہیں لیکن عمومی طور پر کسی ادیب یا شاعر کے مقدر میں کوئی ایک ہی نشست آتی ہے۔بہت کم ایسے ہوئے جنہیں شہرت بھی نصیب ہوئی اوربلاشرکت ِ غیرے عظمت کی مسند پر بھی بٹھائے گئے۔جن منزلوں پر میر، غالب،انیس اور اقبال سجادہ نشیںہیں،بے پایاں شہرتوں کے باوجودجوش، فیض اور فراز کووہاں تک پہنچنا نصیب نہ ہوا۔
فی زمانہ جو نوجوان ظفرائے یا جونائے ہوئے پھرتے ہیںانہیں ن،م،راشد، میراجی، مجید امجد، ناصر کاظمی، منیر نیازی اور شکیب جلالی کی تخلیقی فضا میں کچھ وقت ضرور گزارنا چاہیے ۔ خوشگوار حیرتوں کے در خود بہ خود ان پرواہوتے چلے جائیں گے۔اور انہیں اپنی تخلیقات کے ریشم میںچھپنے ٹریش کا ایش اور کلیشے کے ریشے صاف دکھائی دیں گے۔اس سے پہلے کہ یہ ریشے تمہارے ریشم کوچاٹ کھائیں،اے عزیزانِ من ! محبوب خزاں کی بات مان لو۔کم کہو، اچھاکہو، اپنا کہو۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں