ترک معاشرہ اور رسم و رواج۔ 51

وسطی ایشیاء سے لے کر اناطولیہ تک ہمیں سماجی و ثقافتی زندگی میں امداد باہمی کی متعدد مثالیں ملتی ہیں

149401
ترک معاشرہ اور رسم و رواج۔ 51

وسطی ایشیاء سے لے کر اناطولیہ تک سیاسی اور ثقافتی زندگی میں ہمیں معاشرتی اتحاد اور باہمی امداد و تعاون کی متعدد اہم مثالیں ملتی ہیں۔ اور جیسا کہ اس قبل کے پروگراموں میں بھی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس باہمی اتحاد اور مدد و تعاون کی اہم ترین مثالیں عثمانی دور کے وقف ہیں۔ مختلف وجوہات کی وجہ سے موسم سرما میں گرم علاقوں میں ہجرت نہ کر سکنے والے پرندوں کے تحفظ کے وقف سے لے کر گلیوں کے آوارہ جانوروں کے تحفظ اور علاج معالجے کے وقفوں تک اور عیدین پر نادار بچوں کے لئے نیا لباس لینے سے لے کر مدرسے، چشمے ، کتب خانے تعمیر کروانے والے وقفوں تک سماجی اتحاد ، تعاون اور سخاوت کی علامت متعدد وقف موجود ہیں۔سماجی اتحاد اور امداد ایک معاشرے کے اتحاد، یک جہتی اور صحت مندانہ تعلق کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔


اس سے قبل ہم نے تحائف کے تبادلے کے بارے میں بات کی تھی تحفہ دینے کو ایک طرح سے باہمی امداد اور اتحاد کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ جب ایک جوڑا شادی کے بندھن میں بندھتا ہے تو گھر بنانے کے مرحلے میں انہیں مدد کی ضرورت پڑتی ہے اس ضرورت کو دولہا دلہن کے کنبے ، عزیز و اقارب اور دوست احباب کی طرف سے ملنے والے تحائف سے پورا کیا جاتا ہے۔جب نیا گھر خریدا جاتا ہے تو اس وقت بھی جو تحائف دئیے جاتے ہیں ان کا مقصد گھر میں موجود اشیاء کی کمی کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ گھر لینے والے یا شادی کرنے والے افراد سے یا ان کے قریبی افراد سے پوچھ کر تحائف خریدنا روزمرہ زندگی ایک عام طریقہ ہے۔ یہ طریقے وقت کے حساب سے تبدیل ہوتے ہیں یا ان میں ردّ و بدل ہوتے رہتے ہیں۔مثلاً آج کل شادی کرنے والے جوڑے کو کوئی تحفہ دینے کی بجائے کرنسی دی جاتی ہے ۔


پیدائش، سنت، شادی یا پھر وفات کے موقع پر جو اجتماعی دعوتیں دی جاتی ہیں ان میں اناطولیہ کی موجودہ دور میں بھی زندہ روایات میں سے ایک روایت عملی طور پر مدد کرنا ہے۔ اہل خانہ کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے ابتدائی تیاری سے لے کر کھانے کی تیاری تک بلکہ کھانا پیش کرنے تک عزیز و اقارب اور دوست ہمسائے مدد کرتے ہیں۔


اناطولیہ میں باہمی امداد ایک ادارے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس روایت کو' ایمے جے'یعنی امدادِ باہمی کا نام دیا جاتا ہے۔ ایمے جے ایک ایسے گروپ کا نام ہے جو ہر کام میں مہارت رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور اناطولیہ کی متعدد جگہوں اور خاص طور پر چھوٹی جگہوں، قصبوں دیہاتوں وغیرہ پر کہ جہاں بعض کاموں کو مکمل کرنا مشکل ہوتا ہے یا بعض کام زیادہ انسانی قوت کے طلبگار ہوتے ہیں ، باری باری کام میں ہاتھ بٹا کر کام مکمل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ایمے جے کا کام شانہ بہ شانہ کیا جانے والا کام ہوتا ہے۔ اگر کام کے لئے پیسے کی ضرورت ہو اور اہل خانہ کی مالی حیثیت اچھی نہ ہو تو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ارد گرد کے افراد کو خبر دی جاتی ہے اور پیسے جمع کر کے اس ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ پیسے جمع کرنے کے اس طریقے کو 'سالما 'یعنی 'سہولت' کا نام دیا جاتا ہے۔یہ جمع کی جانے والی رقم ضروری کام کے لئے خرچ کی جاتی ہے۔خاص طور پر شادی، نوجوانوں کو فوجی تربیت پر بھیجنے کے وقت، تعلیم کے لئے کسی نوجوان کو کسی دوسرے شہر بھیجنے کے لئے یا پھر طویل سفر پر جانے کے لئے پیسے کی ضرورت کو سالما یعنی سہولت کی روایت کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے اور جسے پیسے کی ضرورت ہو اسے دیا جاتا ہے۔


دیہی علاقوں میں زندگی کا دوام زراعت اور مویشی بانی سے ممکن ہوتا ہے۔ان کاموں کے لئے جسمانی قوت کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لہذا ایسے گھر کہ جن میں نوجوان فوجی تربیت کے لئے گئے ہوئے ہوں گھر کا مرد بیمار ہو اور گھر میں کاموں کے لئے افرادی قوت کم پڑ گئی ہو وہاں ایمے جے یعنی اجتماعی مدد کے اصول کے ذریعے کاموں کو مکمل کیا جاتا ہے۔ اناطولیہ میں صرف مختلف اسباب کی وجہ سے کام کو پورا نہ کر سکنے والوں ہی کی نہیں ایسے لوگوں کی بھی امداد باہمی کے اصول پر مدد کی جاتی ہے کہ جن کا کام بہت زیادہ ہو۔ اس کے علاوہ مشترکہ سماجی ضرورتوں کی تکمیل اور تنصیبات کی تعمیر کے لئے بھی امداد باہمی کے ذریعے کام کیا جاتا ہے۔ اسکول، صحت کے مراکز اور مساجد جیسی مشترکہ ضرورت کی جگہوں کے قیام کے لئے پیسے کی کمی اور افرادی قوت کو پورا کرنے کے لئے عوام متحرک ہو جاتے ہیں اور یوں مل جل کر کام کو پورا کرتے ہیں۔ موسم سرما کی تیاری باہمی مدد سے مشترکہ طور پر کی جاتی ہے۔ موسم سرما میں جلانے کے ایندھن کی تیاری ، خشک درختوں کی کٹائی، موسم سرما خشک خوراک کو محفوظ کرنا ، سویاں بٹنا، اچار ڈالنا، یا پھر دولہن کے جہیز کی تیاری کرنا ایسے چند کام ہیں کہ جنہیں دوست احباب اور ہمسائے ایک جگہ جمع ہوکر اور مل جل کر کام کرتے ہیں۔یہ کام کرنے والے کام کرنے کے ساتھ ساتھ گیت گاتے ہیں اور کام کرتے ہوئے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔


"گاؤں کے کمرے" ایسی جگہ ہے جسے گاؤں کے رہائشی امداد باہمی کے اصول پر بناتے ہیں یا پھر انہیں گاؤں کے خوشحال افراد تعمیر کرواتے ہیں۔ ان کمروں کو تعمیر کروانے والے بعض اوقات ان کمروں کو اپنا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ کمرے بارہویں صدی میں اناطولیہ کے دورِ سلجوقی میں تعمیر کروانا شروع کئے گئے اور یہ روایت ابھی تک جاری ہے۔یہ کمرے گاؤں کے مشترکہ استعمال کی جگہ ہوتے ہیں۔ ہر گاؤں میں یقیناً ایک ایسا کمرہ یا ڈیرہ ہوتا ہے اور ان کے مصارف گاؤں کے خوشحال افراد کی طرف سے پورے کئے جاتے ہیں۔ان کمروں میں گاؤں میں آنے والے مہمانوں کو رکھا جاتا ہے اور ان کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ گاؤں میں آنے والے تاجر، مہمان، پھیری والے، چرواہے یہاں آرام سے رہتے ہیں اور ان کی ضروریات کو گاؤں والے پورا کرتے ہیں۔پرانے زمانے میں ان کمروں کے ساتھ یا اس کی زیریں منزل میں ایک اصطبل بھی ہوتا تھا کہ جہاں مہمان کے جانور کو رکھا جاتا تھا۔ یوں مہمان کی مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ اس کے جانور کی بھی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ موسم سرما کے دنوں میں ارد گرد کے دیہاتوں سے کام کی غرض سے آنے والوں کو اگر شام پڑ جائے تو گاؤں کے لوگ انہیں واپس نہیں لوٹنے دیتے اور وہ لوگ ان کمروں میں قیام کرتے ہیں۔ترک عوام کی مہمان نوازی کی ایک عمدہ مثال یہ کمرے گاؤں کے رہائشیوں کی بھی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر اگر کسی کے گھر میں جگہ تنگ ہو تو وہ ان کمروں کو استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی میٹنگ ہو یا کوئی صلاح مشورے کا موقع ہو تو ایسے وقت میں بھی ان کمروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ کمرے ترک ثقافت کے حوالے سے ایک نہایت اہم مقامات ہیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں