عالمی ایجنڈا۔ 97

183541
عالمی ایجنڈا۔ 97

ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات خاصکر ترکی کی یورپی یونین میں مستقل رکنیت کے موضوع پر مذ اکرات طویل عرصے سے سست روی کا شکار ہیں ۔ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان تین اکتوبر 2005 میں رکنیت کے مذاکرات شروع ہوئے تھے اور توقع کی جاتی تھی کہ یہ مذاکرات تیزی کیساتھ فروغ پائیں گے ۔ترکی کو مستقل رکنیت کی فراہمی کی قطعی تاریخیں بھی دی جا رہی تھیں ۔بعض حلقوں کیمطابق ترکی کو 2014 اور بعض کیمطابق 2023 میں ترکی کو یورپی یونین کا مستقل رکن بنایا جانا تھا لیکن رکنیت کےعمل میں انتہائی سست روی کا دور شروع ہو احتی کہ ایک وقت یہ عمل رک جانے کے نکتے پر پہنچ گیا ۔رکنیت کے مذاکرات کے دائرہ کار میں 35 عنوانات پرمذاکرات شروع کیے جانے تھے مگر یورپی یونین کے رکن ممالک کے فیصلوں کی رو سے 14 عنوانات پر مذاکرات کو معطل کر دیا گیا ۔یورپی یونین نے ترکی کی رکنیت کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کیں۔ یورپی یونین اور ترکی کی رائے عامہ کو حیرت میں ڈالنے والی یہ پیش رفت جاری رہی ۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تر کی اور یورپی یونین کے تعلقات جو تیزی کیساتھ بہتر ہو رہے تھے ایک دم رکنیت کے اس عمل پر ضرب لگانے کی وجہ کیا تھی اور 2005 میں قابل رشک تعلقات دو سال کے اندر کیوں بد تر ہو گئے؟ ان سوالات کا دو حصوں میں جواب دیا جا سکتا ہے ۔
اس موضوع پر مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا جائزہ 
ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کے مذاکرات میں سست وری پیدا ہونے کی پہلی وجہ جرمنی اور فرانس کے رویے میں تبدیلی آنے سے ہے ۔یہ دونوں ممالک یورپی یونین میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جرمنی میں انگیلا مرکل اور فرانس میں سرکوزی کے برسر اقتدار انے کے بعد یورپی یونین کے ترکیکے بارے میں نظریات میں تبدیلی آنے لگی ۔ ان دونوں لیڈرون اور ان کے حمایتی روایت پسند اور کرسچن ڈیموکریٹس گروپوں نے یہ دعوی کیا کہ ترکی کو یورپی یونین کی مستقل رکنیت دینے کے بجائے اسے امتیازی حیثیت دی جانی چاہئیے۔اسی دوران دیگر یورپی اداروں نے بھی ترکی اور مسلمانوں کے بارے میں منفی موقف اختیار کیا ۔یعنی اسلام مخالف عناصر ترکی کو رکنیت دینے کیخلاف تھے ۔دوسری جانب مسئلہ قبرص کیوجہ سے فرانس اور قبرصی یونانی انتظامیہ نے ترکی کی رکنیت کی فائلوں کو معطل کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔یورپی انسانی حقوق کی عدالت نے ترکی میں سکارف اوڑھنے کی آزادی کے مقدمے کےبارے میں منفی فیصلہ کر کے ترکی کےبارے میں منفی نظریات کا برملا اظہار کیا۔ اگرچہ یورپی ممالک نے واضح طور پر اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا لیکن صورتحال سے یہ حقیقت کھل کر سامنےآئی ہے کہ ترکی کو اس کے مذہبی تشخص کیوجہ سے یورپی یونین کا رکن نہیں بنایا جا رہا ہے ۔
اس منفی پیش رفت کیوجہ سے ترکی میں بھی یورپی یونین کیخلاف خاصکر فوجی بیوکریٹس اور ان کے حامیوں نےپروپگندا کرنا شروع کر دیا ۔ان ایکٹرز نے اس نظریے کا دفاع کیا ہے کہ ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت سے اتاترک کے انقلابات کو نقصان پہنچے گا۔ عوام اور میڈیا نے بھی اس کی حمایت کی ۔قوم پرست عناصر نے 2007 میں کروائی جانے والی میٹنگز میں اس نظریے کا دفاع کیا کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے سے نقصان پہنچے گا ۔۔بیورو کریٹس اور قوم پرستوں کےنظریات نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی حکومت اور حامیوں کو بھی متاثر کیا اور یورپی یونین کی رکنیت سے ترکی کے مفادات کو نقصانات پہنچنےکا دفاع کرنے والوں کی اوازیں ابھرنے لگیں ۔وہ اس نظریےکے حامی تھے کہ ترکی کو مشرق وسطی اور یوریشیا میں جگہ لینے کی ضرورت ہے ۔مشرق وسطی ،بلقان اور کاکیشیا کے جیو پولیٹک اور سلامتی کے مسائل نے ترکی کو ان مسائل کو حل کرنے کی جانب راغب کیا ۔مگر بنیادی عنصرترکی کے 2007 کے بعد خاصکر دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کے لیے رفتہ رفتہ مشرق وسطی کی جانب جھکنا تھا ۔ترکی نے امریکہ اور یورپی یونین کی حمایت سے مشرق وسطی میں کردار ادا کرنے حتی کہ علاقے میں نظام قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔اس عمل میں صدر اوباما ،اس دور کے وزیر خارجہ یعنی وزیر اعظم احمد داود اولو نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔امریکی حکومت اور حکومت ترکی نے علاقاءی مسائل کو حل کرنے کے لیے ماڈل حصہ داری قائم کی ۔ 2009 میں ہونے والی ماڈل حصہ داری اور 2011 کی بہار عرب نے ترکی کو یورپی یونین سے دور کر دیا تھا ۔شام کی خانہ جنگی اور دہشت گرد تنظیم داعش اس عمل کا آخری مرحلہ تھا۔
بلاشبہ ترکی مشرق وسطی اور علاقے کی صورتحال سے دور نہیں رہ سکتا ۔اسے علاقے کی صورتحال اور علاقائی مسائل میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے ۔لیکن ترکی کا مشرق وسطی یا کسی دوسرے علاقے میں کردار ادا کرنا یا پھر نیا نظام قائم کرنے کی کوشش کرنا یورپی یونین کی پیش نظر میں شامل ہے کیونکہ ترکی کا پیش نظر ترکی کے ڈیموکریسی ،استحکام اور ترقی کے لیے طاقتور زمین ہموار کرتا تھا ۔ دراصل ترکی کی دیگر علاقوں میں کامیابی اس پیش نظر کی کامیابی سے مماثلت رکھتی تھی۔ترکی کا علاقے اور پوری دنیا میں موثر ثابت ہونے کےلیے ان اقدار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔خاصکر داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کیخلاف جدوجہد علاقے میں استحکام کے قیام اور دیگر ممالک کی رہبری کرنے یا ماڈل بننے کے لیے یورپی یونین کی رکنیت اور متعلقہ اقدار کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے
۔اگرچہ گزشتہ برسوں میں ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ موضوع دوبارہ ایجنڈے میں آ گیا ہے ۔وولکان بوزکر نے یورپی یونین کی وزارت کا عہدہ سنھبالنے کے بعد اس ضمن میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کر دیا ہے جس سے امید کی کرن روشن ہو گئی ہے ۔ان کی زیر قیادت شائع کیجانے والی ترکی کی یورپی یونین کی حکمت عملی سے یورپی یونین کے ممالک کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔توقع ہے کہ یورپی یونین بھی ان کی حمایت کرئے گا ۔مرکل اور سرکوزی نے جو منفی ماحول پیدا کیا ہے اسے دور کرنے کے لیے دوطرفہ قربت کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ ضرورت مشرق وسطی میں رونما ہونے والے واقعات کیوجہ سے ایک بار پھر ایجندے مین سر فہرست آ گئی ہے ۔یورپی یونین اور ترکی حتی کہ پوری دنیا کو اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کےلیے ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کی اہمیت ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں