دین اور معاشرہ ۔ 41

دین اسلام کی رو سے انسانی شخصیت

156231
دین اور معاشرہ ۔ 41

اسلامی نقطہ نظر کے مطابق بنی نو انسان اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ماحول میں زندگی بسر کر سکنے کی خصوصیت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے کیے گئے وعدوں کو بھلانے کی عادت کے مالک ہونے والی ایک مخلوق ہیں۔یہاں پر دین انسان کو فراموش کردہ حقیقت کی یاد دہانی کروانے والے الہی احکامات کو بیان کرتا ہے۔ انسان کے اپنے وجود، علم، اور اخلاقی اقدار کے اعتبار سے اللہ تعالی کے قرض دار ہونے اور اس حقیقت سے آشنا رہنے کی یاد دہانی بھی کراتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی وحدیت کے ساتھ ساتھ سماجی امن و امان کے تحفظ کو بھی ہدف بناتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کو بھیجے گئے انبیاء کے فرائض میں انسان کے فراموش حقیقت سے دوبارہ متعارف ہونے اور انہیں انسانی طور پر زندگیاں بسر کرنے کی تلقین و ہدایت بھی شامل تھے۔
حضرت محمد ﷺ ان کو اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے جانے کا کہتے وقت سماجی اقدار کی بنیادوں کے بلند اہداف کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔یہ ارشاد نبی اکرم کے انسان کے پرورش پانے کے عمل کے صرف ایمان تک محدود نہ ہونے بلکہ پوری زندگی پر محیط ہونے کا مظہر ہے۔ اس صورت میں دین انسانوں کو مجموعی طور پر اپنے دائرہ عمل میں شامل کرتا ہے اور یہ اس حقیقت کے ساتھ ہی انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہمارے پیغمبر بھی اپنی پوری زندگی کے ساتھ بنی نو انسانوں کے لیے ایک احسن مثال تشکیل دیتے ہیں۔کیونکہ انسان مالی و معنوی اعتبار سے یکسانیت کا حامل ہے۔انسانوں کے امن و تسکین سے سرفراز ہونے میں معاون ثابت ہونے والے مادی و معنوی عناصر خالقِ حقیقی کی طرف سے انسانوں کو عطا کیے گئے ہیں۔
انسانوں کا رویہ اور برتاؤ صحیح اور قطعی معلومات پر مبنی ہونا چاہیے۔ کیونکہ صورتحال اور برتاؤ محض دماغی شکوک و شبہات، تخمینی اور غلط معلومات سے مبرا ہونے سے ہی استحکام حاصل کرتا ہے۔ انسان محض اسی طریقے سے کسی شناخت اور شخصیت کو پا سکتا ہے۔ چونکہ قرآن کریم نے اس حوالے سے تنبیہ کر رکھی ہے، اس نے مفروضات کے حق و حقیقت کو بیان نہ کر سکنے کی سچائی کو بیان کیا ہے۔ انسان کی سوچ و فکر کسی یکسانیت پر مبنی ہونی چاہیے۔اس سے محروم رہنے والوں کو "غیر متوازن" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔متوازن اور مضبوط شخصیت کا حصول قطعی معلومات کے ایمان کی ماہیت اختیار کرتے ہوئے انسان کی رہنمائی کرنے کے ساتھ ہی ممکن بن سکتا ہے۔ یہاں پر استدلال اور اسباب پر غور کرنا لازم و ملزوم ہیں۔
شخصیت کو برتاؤ کی بدولت سامنے لا سکنے والی سالمیت کے اندر انسان ، یقین ہونے والی اقدار اور اصولوں کے ساتھ ہم آہنگی کےماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ طرزِ زندگی انسان کے اپنے ہر برتاؤ کو سوچ سمجھ کر پیش کرنے کے ساتھ ہی ممکن بن سکتی ہے۔سوچ و تخیل کا منبع ہونےو الی عقل، شخصیت کے قیام میں نکھارنے والے عنصر اور نگران کردار ادا کرنے کے عوامل کو سر انجام دیتی ہے۔ اندرونی خود کے مسرت و خوشی سے بھرے نہ ہونے کی صورت میں انسان کا تسکین حاصل کرنا نا ممکن ہے۔انسان کو اپنی حقیقت سے دور ہٹانے والے عناصر آرزو، تمنا اور ضروریات ہیں۔ضروریات کی سطح میں حد درجے اضافہ کرنا انسان کو اپنے اصل مقصد و فرائض سے منحرف کر دیتا ہے۔ ذمہ داری اٹھانے کے لیے نیت و ارادہ لازمی ہے۔ ارادے و نیت کے وجود سے منکر ہونے کی صورت میں دنیا میں حق، فرائض، اخلاق، جرم، سزا وغیرہ کا وجود بھی ختم ہو جائیگا۔
تقریباً تمام تر معاشروں میں اچھائی اور برائی نمایاں ہوتی ہے۔ انسان کو ان دونوں میں سے کسی ایک کو چننے کی آزادی حاصل ہے۔ حریت و انسانیت کے لیے نفسانی اور اچھوتی خواہشات سے نجات پانا ضروری ہے۔ کیونکہ آزادی اللہ و انسانی حقو ق کے زیر بحث ہونے کے وقت ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی آزادی کی اقدار حقوق کی پامالی نہ کرنے کی حد بندی کی حامل ہے۔ قوانین کی خلاف ورزی کی سزا دنیاوی نظام میں اپنےمقام رکھتی ہے اور اپنے ارادے و نیت کو قابو میں نہ رکھ سکنے والوں کو اس طریقے سے جرم کرنے سے باز رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ دین اسلام میں حریت و آزادی اپنے لیے یا پھر معاشرے کے لیے فائدہ مند ہونے والے اور کسی کو نقصان نہ پہنچانے والے کاموں میں ہر کس کے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا مفہوم رکھتی ہے۔ تا ہم قطعی اور حتمی آزادی کا وجود نہیں پایا جاتا۔ دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کرنا حریت کی لازمی شرط ہے۔ انسانی حق نہ ہونے والے معاملات یعنی ادب و اخلاق کی طرح کے برتاؤ کو بھی سوچ سمجھ کر سامنے لانا لازمی ہے۔
عصرِ حاضر کے انسانوں کے نظام کے طور پر قبول کردہ نظریات، فلسفے، آئیڈیالوجی، ناکامیاں، مسائل، ایک دوسرے پر نکتہ چینی کے وقت زیر لب لائے گئے بُرے الفاظ ان کو زیادہ بہتر طریقے سے واضح کرتے ہیں۔ اس نکتے پر دین ِ اسلام کے کس قدر ایک مکمل اور احسن دین ہونے کی حقیقت سامنے آتی ہے۔ اسلام ایک فطری اور طبعی دین ہونے کے باعث بشری خصوصیات کی حامل جسمانی، عقلی اور روحانی خواہشات کو پورا کرتا ہے، اور یہ بیک وقت ان کے درمیان موازنے اور توازن کو قائم کرنے کا ہدف بناتا ہے۔
انسانی زندگی مادے اور روح کا امتزاج ہے۔ شخصیت، توازن اور اعلی سطح کو حاصل کرنے کی جستجو، پر جوش روح اور حقیقت کے سفر پر مبنی ہے۔ حقائق موتی کی مانند ہوتے ہیں۔ جو کے کم گہرائی کے بجائے گہرائی میں ملتے ہیں۔مسلم امہ اور عالم اسلام کو در پیش بحرانوں سے نجات کا راستہ اسی نکتے میں پوشیدہ ہے۔ اپنے نچوڑ اور طبعیات سے دور جانے والا انسان چاہے دنیا کے رازوں کو دریافت کر لے تو بھی یہ روحانی تسکین کے ذائقے کو چکھنے سے محروم ہی رہے گا۔ کیونکہ قلب صرف اور صرف اللہ تعالی کی مرضی سے ہی خوشی کے جذبات سے سر شار ہو سکتے ہیں۔جغرافیائی دریافتیں، صنعتی انقلابات اور حالیہ دور کی ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی آنکھوں کو چمک دمک سے اندھا کر رکھا ہے۔ روحانی روشنی سے مطلوبہ حد تک فیض یاب نہ ہونے والے انسانوں کے لیے یہ ترقی انتہائی پر کشش بن چکی ہے۔ دور حاضر کے لوگ اب اپنی ذاتی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں بھی سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ مادیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زندگیاں گزارنے کی کوشش میں ہیں۔
علاوہ ازیں موجودہ دور کے امراض میں سے نفسیاتی دباؤ روحانی خصوصیات اور تقاضوں کو فراموش کرنے کی بنا پر پیدا ہونے والی ایک بیماری ہے۔ یہ اور اس طرح کی بیماریوں کا علاج معالجہ تلاش کرنے کی خاطر انسان کا مادی چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا لازمی ہے۔ عصر حاضر کی علمی مفاہمت، انسان کو انسان کے طور پر صحیح معنوں میں زیر بحث نہیں لاتی۔۔ لوگ اپنے آپ کو مکمل طور پر علمی میدان میں داخل نہیں کرتے۔موجودہ علم طب بڑے پیمانے پر روحانی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے مردہ انسانوں پر تحقیقات پر مبنی ہے۔ انسان کو اپنی دوبارہ دریافت کے لیے معاون ثابت ہونے والے راستے تلاش کرنے چاہییں۔ انسان کو بلا روح کے مادی اشیاء کی منطق کے بجائے"بدن و روح پر مشتمل یکسانیت "کے طور پر جائزے لینے چاہییں۔ اس بنا پر حقائق کو قبول کرتے ہوئے معلومات کی روشنی میں اور ان دنیاوی چمک دمک میں پڑے بغیر ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسانی اقدار سے انکار کرتے ہوئے کسی نتیجے تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ موجودہ علم کا انسان کو ملنے والی اقدار کو ایک انسانی حقیقت کے طور پر قبول کرتے ہوئے معینہ اصولوں کے ساتھ الہی روشنی میں دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔

 

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں