دین اور معاشرہ ۔ 39

نبی اکرم کے ارشادات اور اعمال سے احسن طریقے سے استفادہ کرنے کے طریقے

144444
دین اور معاشرہ ۔ 39

ہم نے گزشتہ قسطوں میں سنت و حدیث کے موضوع پر مختصر اً بات چیت کی تھی۔ آج کی قسط میں سنت یا پھر حدیث کے نام سے یاد کیے جانے والے ان ذرائعوں سے کس طرح استفادہ کرنے کے موضوع پر گفتگو کریں گے۔ کیونکہ معاشرے میں حدیثوں کے حوالے سے کتب کا مطالعہ کرنے اور ان پر عمل درآمد کے بارے میں بعض مسائل سامنے آتے ہیں۔
مسلم طبقہ عمومی طور پر در پیش تمام تر مسائل کے حل کو قرآن حکیم اور صحیح سنتوں میں تلاش کیے جانے کی سوچ رکھتا ہے۔ اس کے باوجود حاصل کردہ نتائج کی اکثریت اپنے اہداف سے دور رہتی ہے۔در حقیقت قرآن و سنت ہر دور کے لیے موزوں اور حقائق کے کبھی بھی نہ تبدیل ہونے والے طریقہ کار کو پیش کرتے ہیں۔ماضی کے علماء دین نے ان دونوں ذرائعوں سے کس طرح استفادہ کیے جانے کے بارے میں اپنی سوچ کے مطابق نسبتاً قابل اعتبار طریقہ کار کو فروغ دیا تھا۔ کیونکہ اصولی بنیادوں پر صحیح طریقے سے شروع نہ ہونے والی کاروائیاں مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرتی۔جدید دور کی سوچ و فکر کی آزادی بعض اوقات نا اہل نہ ہونے والوں کو بھی مفسر ہونے کا دعوی کرنے کا موقع پیدا کرتی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں مسلمان معاشروں میں کئی گروہ سامنے آئے ہیں۔ دینِ اسلام کے اصلی اصولوں کے بجائے زیادہ تر باریکیوں کو پیش پیش رکھنے کی کوشش کی گئی۔قرآن کریم اور حدیثوں سے بعض حصوں کو چنتے ہوئے معاشروں کی رہنمائی کرنا انتہائی خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے۔ لہذا ان ذرائعوں سے استفادہ کرتے وقت کسی طریقہ کو اپنانے اور دین کی سالمیت کے اصولوں کا ہمیشہ تحفظ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں پر اس چیز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ چاہے کلاسیک دور میں ہو یا پھر موجودہ دور میں کسی خاص مقصد تک پہنچنے کے لیے بعض بنی بنائی حدیثوں کو پیش کرتے ہوئے سنت و قرآن کو عدم اعتبار والا بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اسی طرح حدیثوں میں تضاد اور اختلاف موجود ہونے کے دعووں کے ساتھ احادیث کے دین میں دلائل نہ پائے جانے کے بارے میں الفاظ ہیں۔بعض اوقات حدیثوں کی تفسیر کرنے والوں پر تنقید کرنے کی خاطر حدیثوں سے مکمل طور پر منکر ہوا گیا یا پھر جزوی طور پر انہیں رد کر دیا گیا۔ مختصراً حدیثوں کے ذرائع مختلف اشکال اور نسخوں کے باعث مختلف نکتہ چینیوں کا سامنا کرتے رہے۔تاریخ بھر کے دوران اسی طرح کی تنقید کا جواب دینے والی کئی تحقیقات کے قلم بند کیے جانے کا ذکر کرنا بھی سود مند ہو گا۔ جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ حدیثوں کے تعین، یکجا کرنے اور ان کی تصنیف کے لیے پہلی صدیوں میں وسیع پیمانے کی کوششیں کی گئیں۔حضرت محمد ﷺ کی سنتوں سے جانکاری حاصل کرنے کی کوششیں، سفر اور ان کے روحانی اثرِ رسوخ کو استعمار کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کی گئی وسیع پیمانے کی جدوجہد سے ہر کس آشنا ہے۔ کرہ ارض پر کسی بھی انسان کے ارشادات اور برتاؤ کا تعین کرتے ہوئے اس کا تحفظ کرنے کی خاطر اس سطح کی سعی نہیں کی گئی۔
حالیہ دور میں حدیثوں پر مبنی کتب کا مختلف زبانوں میں ترجمعہ کیا گیا ہے۔تا ہم ان کتب سے عوام الناس کے استفادہ کرنے کے زیر مقصد ترجمعہ اور تفسیر کے دورا ن بڑے دھیان اور توجہ سے کام لینا لازمی ہے۔ اس چیز کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حدیثیں معنوں کے اعتبار سے روایتی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔عربی زبان سے عاری اور دینی معاملات کا زیادہ علم نہ ہونے والے کسی انسان کی طرف سے پیغمبر محمد ﷺ کے پیغامات کو آگے تک پہنچانے میں کوما اور نقطے کے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہوسکنے اور بعض اوقات مفہوم میں تبدیلی لا سکنے کوبالائے طاق رکھتے ہوئے توجہ اور دھیان سے کام لینا لازمی امر ہے۔
تاریخ بھر کے دوران علمائے دین کے درمیان جنم لینے والے اختلافات کی اکثریت دینی متنوں کی تفسیر اور ان کو مختلف طریقے سے بیان کرنے کے باعث سامنے آتی رہی۔ اسی سبب کے باعث کئی مذہب جنم پاتے ہوئے مختلف طبقوں میں رِچ بس گئے۔ جس کے پیچھے احیائے دین کی تفیسر و تجزیات کار فرما ہیں۔ کیونکہ ہمارے نبی اکرم کے اپنی اُمت تک پہنچانے کی خواہش ہونے والے پیغامات اور ان کی احادیث کو صحیح طریقے سے سمجھنا دین ِ اسلام کو بہترین طریقے سے جاننے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
حدیثوں کے صحیح معنی و مفہوم تک رسائی کے لیے عربی زبان کو اچھی طرح جاننے کے ساتھ ساتھ مذکورہ حدیثوں کی تاریخ بھر کے دوران کی گئی تفسیروں اور تبصروں پر ایک نگاہ ڈالنا فائدہ مند ثابت ہو گا۔ جائزہ لینے سے اس عمل کے اصحابہ کرام کے دور تک پھیلے ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں حدیثوں کا ہمیشہ قرآنی آیات کے ساتھ ہی جائزہ لینا لازمی ہے۔ کیونکہ قرآن و سنت کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا نا ممکن ہے۔ سنت، قرآن کریم کے احکامات کو سمجھنے اوران پر عمل پیرا ہونے کے لیے کسی رہبر کی خصوصیت رکھتی ہے۔بہترین تفسیر کا بھی انہی میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ تا ہم سنتوں کا قرآن ِ حکیم سے وابستہ ہونا شرطیہ ہے۔
حدیثوں کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے ایک اہم امر ایک جیسے موضوع پر مبنی تمام تر حدیثوں کا بیک وقت جائزہ لینا ہے۔ موضوعات کو زیادہ احسن طریقے سے سمجھنے کی خاطر عصرِ حاضر میں اسی طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایک ہی حدیث کی مختلف تفسیروں کے موجود ہونے کی صورت میں ان کا مطالعہ کیے بغیر کسی تجزیے کو بیان کرنا غلط مفہوم پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے درمیان موازنہ نہ کرنے سے بعض حقائق آپ کی نظروں سے دور رہ سکتے ہیں۔ یہ بھی نہیں بھلانا چاہیے کہ بعض احادیث کسی دوسری حدیث کی تفصیلات کو بیان کرتی ہیں۔احادیث کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے یہ طریقہ کار نا گزیر ہے۔
حدیثوں پر اپنی رائے و تفسیر پیش کرنے والے شخص کو قطعی طور پر حدیثوں کو بیان کرنے کی وجوہات پر تحقیقات کرنی چاہیے۔ حضرت محمد کے ارشادات اور اعمال کا جائزہ لیتے وقت تاریخ بھر کے دوران ان کے تاریخی اور سماجی سیاق و سباق ، وقت اور مقام ، مقامی و کائناتی، خصوصی و عمومی ہونے کا تعین کرنا قدرے اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری جانب سے حدیثوں میں پوشیدہ معنی،مقاصد، اصولوں اور اہداف سے جانکاری حاصل کرنا ، حدیث پر بات کرنے خواہاں شخص کی طرف سے نظر انداز نہ کیے جانے والے عوامل ہیں۔ ماضی کی طرح عصرِ حاضر میں بھی حدیثوں کے مفہوم، پیغامات اور اصولوں کو آگے تک پہنچانے کے لیے ان کو صحیح طریقے سے سمجھنا لازم و ملزوم ہے۔ لہذا ان کے درمیان پابند ہونے یا نہ ہونے کے درمیان تفریق کرنا بھی ضروری ہے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں