عالمی ایجنڈا۔89

122190
عالمی  ایجنڈا۔89


۔چار تا پانچ ستمبر 2014 کو نیٹو کا ویلز سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔جس میں نیٹو کو درپیش اہم مسائل کا جائزہ لیا گیا ۔اس اجلاس میں 28 رکن ممالک سمیت 60 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ۔ اجلاس میں جو چار اہم فیصلے کیے گئے ہیں ان کا تعلق5000فوجیوں پر مشتمل ہنگامی قوت کو وسطی یورپ میں متعین کرنے،روس اور یوکرین کے درمیان فائر بندی کا معاہدہ کروانے،داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کیخلاف جدوجہد کے لیے دس اراکین کا گروپ تشکیل دینے اور علاقے میں ترکی کے کردارکو اہمیت دینے سے ہے ۔اس اجلاس کے دوران صدر رجب طیب ا یردوان اور صدر باراک اوباما نے طویل عرصے بعد بالمشافہ مذاکرات کیے ۔یہ مذاکرات ترکی اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور ترکی کے مشرق اور مغرب کے درمیان پل کے کردار کی آدائیگی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ویلز سربراہی اجلاس ترکی اور امریکہ کےتعلقات ،ترکی کی خارجہ پالیسی اور علاقائی اور بین الا قوامی پالیسی کے لحاظ سے اہم ثابت ہو سکتا ہے ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ
نیٹو کو اب بھی دنیا کی طاقتور ترین،تجربہ کار اور سلامتی کی ایک تنظیم کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔امریکہ اور یورپی ممالک کی فوجی ،اقتصادی ،سیاسی اور ٹیکنالوجک طاقت نے نیٹو کو ایک غالب قوت کی حیثیت دے دی ہے ۔نیٹو کے سیکریٹری جنرل راسموسن نے ویلز سربراہی اجلاس میں یہ واضح کیا ہے کہ نیٹو نے ٹرانس ایٹلانٹک کےعلاقے کو محفوظ، پر استحکام اور ایک خوشحال جزیرے کی شکل دے دی ہے ۔نیٹو نے 1949 میں اپنے قیام کے بعد خاصکر سرد جنگ کے دور میں اپنے اراکین کی سلامتی کے تحفظ میں کامیابی کا مظاہر ہ کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نیٹو ہر مسئلے کوحل کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔سرد جنگ کے خاتمے کےبعد نیٹو کو اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اس پر اپنے اراکین کے درمیان اور دنیا میں عدم استحکام پیدا کرنے اور جھڑپوں کو ہوا دینےکے الزامات لگائے گئے ہیں ۔مثلاًروس کے یوکرین پر قبضے اور داعش کے کاروائیوں کے دوران نیٹو اور اس کے رکن ممالک نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا ۔اگرچہ یوکرین نیٹو کا رکن ملک نہیں ہے لیکن نیٹو کے تمام ممالک نے یوکرین کی کھلے عام حمایت کی ہے ۔اس کے باوجود روس نےنیٹو کو چیلینج کرتے ہوئے یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا ۔سربراہی اجلاس کے دوران یوکرین اور روس کے درمیان ہونے والی فائر بندی اس جنگ کو روک سکتی ہے لیکن کریمیا کو اس کی سابق حیثیت دلوانے کے لیے بہت کوششیں صرف کرنے کی ضرورت ہے ۔شام کے بحران کے دوران بھی نیٹو کی ناکام کارکردگی کھل کر سامنے آئی ہے ۔شام کے بحران میں نیٹو کے رکن ممالک نے بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ کردار ادا کیا ہے ۔شام کیطرف سے ترکی کی سرحدی سلامتی کی بارہا پامالی کی گئی ۔شام نے ایک ترک طیارے کو مار گرایا گیا لیکن نیٹو نے رکن ممالک پر حملے کی صورت میں سلامتی سے متعلقہ شق نمبر پانچ پر عمل درآمد کرنےکے بجائے شق نمبر چار پر عمل درآمد کرتے ہوئے صرف ترکی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور سرحد پر پیٹرییات میزایل نصب کیے ۔اگرچہ اسطرح ترکی کی سرحد کو تحفظ دیا گیا مگر شام سے لاحق خطرات کو دور نہ کیا جا سکا ۔ نیٹو کیطرف سے شام کے مسئلے کو حل نہ کرنے سے دولت اسلامیہ فی عراق و الشام جیسی دہشت گرد تنظیموں کے حوصلے بلند ہوئے اور انھوں نے طاقت پکڑی ۔نیٹو کے رکن ممالک خاصکر امریکہ ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی جیسے ممالک نے تقریباً تین ماہ سے جاری داعش کی دہشت گرد کاروائیوں کو روکنے کے لیےکوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے لیکن جب نیٹو نے دیکھا کہ یہ تنظیم علاقے کے لیے خطرہ بن رہی ہے تواس نے بعض تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کی۔داعش نہ صرف علاقائی ممالک بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطر بن گئی ہے ۔
نیٹو کے رکن ممالک نے اب یوکرین اور داعش کے مسئلےکو حل کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں ۔ویلز سربراہی اجلاس کے انعقاد کا ہدف افغانستان کے مسئلے کے علاوہ یوکرین اور داعش کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تدابیر اختیار کرنا تھا۔اس دائرہ کار میں روس کیطرف سے مشرقی یورپی ممالک پر ممکنہ حملے کی روک تھام اور داعش کیخلاف بری کاروائی کرنے کے علاوہ خفیہ معلومات کے مبادلے اور فوجی ،اقتصادی ،سیاسی کاروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔امریکہ کے صدر باراک اوباما نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران اس موضوع پر اپنائی جانے والی حکمت عملی کے بارے میں بعض اشارے دئیے ہیں ۔تاہم فی الحال یہ موضوع زیر بحث ہے کہ یہ حکمت عملی کیا ہے ، اتحادی ممالک میں شامل ممالک کیا کردار ادا کریں گےاور ممکنہ خطرات کیا ہونگے ۔مثلاً ترکی اس حکمت عملی میں اہم کردار ادا کرئےگا لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ ترکی کا کردار کیا ہو گا ۔اس غیر یقینی صورتحال کیوجہ سے نیٹو کے فیصلوں پر اعتراضات کیے جا سکتے ہیں ۔خاصکر داعش کیخلاف کاروائیوں کے دوران ترکی کیطرف سے یہ اندیشے ظاہر کیے جا سکتے ہیں ۔پہلا یہ کہ عراق میں ترکی کے سفارتخانے کے انچاس اہلکار وں کو ابھی تک داعش نے یرغمال بنا رکھا ہے اور داعش کیخلاف کاروائی کرتے ہوئے ان یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے ۔دوسرا یہ کہ داعش کیخلاف کاروائیوں کے دوران ترکی کے ہوائی اڈوں کےاستعمال سے ترکی کو علاقائی جھڑپ میں نہ جھونکا جائے۔ تیسرا یہ کہ اس حکمت عملی کے ذریعے ترکی کو علاقائی ممالک کے آمنے سامنے نہ لایا جا ئے۔داعش کیخلاف جدوجہد کے دوران علاقے کی دیگر دہشت گرد تنظیموں کو طاقت ور بننے اور علاقے میں موجود عدم استحکام کو مزید بڑھنے کی اجازت نہیں دینی چاہئیے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں