ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 32

83951
ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 32

: بحیرہ مارمرہ کے یورپی دہانے پر آباد شہر ایدیرنے کے مشرق میں کرکلار ایلی اور تیکیر داع،جنوب میں چناق قلعہ اور بحیرہ ایجیئن ،مغرب میں یونان اور شمال میں بلغاریہ واقع ہیں۔
ایدیرنے کا موسم جنوب سے شمال کی جانب جاتے ہوئے سخت ہو جاتاہے جبکہ بحیرہ ایجیئن کے کنارے واقع جنوبی علاقوں میں موسم گرم مرطوب رہتا ہے ۔
ایدیرنے شہر تھریس نسل سے وابستہ اودریس کی جانب سے پانچویں صدی قبل مسیح میں قائم کیا گیا تھا اسی وجہ سے اس شہر کا پرانا نام اودریسیا تھا ۔ دوسری صدی میں فرماںروا حادریانوس کے دور میں اس شہر کو حادریانوپولس پکارا جانے لگا۔ ایدیرنے شہر میں چوتھی صدی کے دوران متعدد جنگیں بھی لڑی گئیں۔ یہ شہر گوت، حون اور بلغار قوم کے بھی زیر اثر رہا ۔ ایدیرنے کا علاقہ ترکوں کی طرف سے سن تیرہ سو اکسٹھ میں فتح کیا گیا۔اس کے بعد سلطان مراد اول نے اس شہر کا نام ایدیرنے رکھتےہوئے اسے اپنی سلطنت کا صدر مقام قرار دے دیا ۔ اس دور کے بعد شہر میں تعمیر و ترقی کا دور شروع ہو گیا ۔ شہر میں تھریس ،بازنطینی اور رومیوں کے ادوار سے متعلقہ قلعے، قبریں اور عبادت خانے بھی موجود تھے۔ ماضی میں اپنے پیروں پرکھڑا آیا صوفیہ گرجا گھر مراد خداوندی گار کے دور میں مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا جس میں بعد کے دور میں ایک مدرسے کا بھی اضافہ کیا گیا تھا ۔
عثمانیوں نے ایدیرنے میں دو محل تعمیر کروائے تھے کہ جن میں سے ایک دریائے تنج کے کنارے واقع ہے ۔ اس محل میں روایتی ترک کشتی کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے ۔
ایدیرنے کی متعدد تاریخی عمارتیں دور عثمانیہ میں تعمیر کی گئی تھیں۔ سن پندرہ سو انہتر میں مشہور معمار سنان علی پاشا کی طرف سے تعمیر کردہ علی پاشا جامع مسجد اور چیلیبی سلطان محمت کی جانب سے تعمیر کردہ بدستان ،مراد سوئم کی طرف سے تعمیر کردہ آراستہ اور رستم پاشا مسافر خانہ ان تعمیرات میں نمایاں ہیں۔
ایدرنے میں واقع سلیمانیہ جامع مسجد اپنی خوبصورتی و دلکشی کی وجہ سے اس شہر کی علامت بن چکی ہے کہ جسے معمار سنان پاشا نے اپنے ماہرانہ تجربات کا نچوڑ قرار دیا تھا ۔ یہ مسجد سن پندرہ سو انہتر تا پندرہ سو پچھتر کے درمیان سلطان سلیم خان دوئم کے نام پر تعمیر کی گئی تھی۔اس مسجد کا ایک بڑاگنبد اور چار مینار ہیں جو کہ اپنی مثال آپ ہیں۔ مسجد کے بیرونی احاطے میں ایک مدرسہ اور دارا الحدیث موجود تھے کہ جس کے مغربی حصے میں ایک کلیہ بھی ہوا کرتا تھا ۔
مسجد کا اندرونی حصہ کافی روشن اور ہوا دار ہے جبکہ اس کا محراب اور منبر اعلی طرز تعمیر کا نمونہ ہیں۔ سلیمیہ جامع مسجد میں چینی کاری کا بھی کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے کہ جس میں سرخ، ہلکے آسمانی ،سفید ،سبز اور کتھئی رنگ کا بھی بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ چینی کاری کے بعض نمونے عثمانی۔روس جنگ کے دوران ایک روسی جرنیل کی طرف سے مسجد سے اکھاڑ کر روس لے جایا گیا ۔
ایدیرنے میں ثقافتی و تاریخی مقامات کی سیر کرنے والے سیاح شہر کی فطری خوبصورتی کے بھی قائل ہو جاتے ہیں۔ خلیج ساروز اپنےصاف ستھرے ساحلوں کی وجہ سے مشہور ہے جبکہ ترکی اور یونان کے درمیان بہنے والےدریا مریج سے ایک جھیل بھی نکلتی ہے جسے گالا کہا جاتاہے ۔یہ جھیل اطراف میں موجود پھولوں اور مچھلیوں کی اقسام کے حوالے سے بھی مشہور ہے ۔
ایدیرنے میں دست کاری کا فن بھی کافی نام پا چکا ہے کہ جن میں لکڑی کےصندوق، الماریوں اور فریم کی تیاری قابل ذکر ہے۔ اس فن کو ایدیرنے کاری کہا جاتا ہے ۔ یہ شہر عثمانی صدر مقام ہونے کی وجہ سے بھی اپنے زمانے میں ترک چینی کاری اور سیرامک کے فن کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں چینی کاری کو خاصی اہمیت دی جاتی تھِ جو کہ عثمانی سلاطین کے ذوق کی بھی ترجمانی کرتا تھا ۔
ایدیرنے میں مختلف مذاہب سے وابستہ عبادت خانے ،بلغار اور اطالوی گرجا گھر، سناگوگ، بہائی قبرستان موجود ہیں جو کہ شہر میں کثیر الاعتقادی اقوام کے درمیان یگانگت و خیر سگالی کے جذبے کی عکاسی کرتےہیں۔ شہر میں مختلف النوع میلے بھی منعقد کیے جاتےہیں کہ جن میں تاریخی کرک پنار کشتی اور مچھلی کے شکار کے مقابلے مشہور ہیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں