دین اور معاشرہ ۔ 31

رسم و رواج اور دینی اصولوں پر ان کے اثرات

79987
دین اور معاشرہ ۔ 31

روز مرہ کی زندگی کو مختلف طریقوں سے متاثر کرنے والی اقدار اور عوامل میں رسم و رواج سر فہرست آتے ہیں۔یہ چیز تقریباً ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ رسم و رواج کسی معاشرے کے اخلاق اور تربیت کے معیار کا تعین کرنے ولے بنیادی اصولوں کو تشکیل دیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری لسان کے استعمال میں روایات، رسومات اور عادات کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا قدرے مشکل ہے۔ ہم نے اس سے پیشتر رسم و رواج کی عمومی قانونی نظام میں اہمیت کو بیان کیا تھا۔آج ہم ان عوامل کی اسلامی قانونی نظام کے دائرہ کار میں کردار کو اُجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔
دین اسلام انسانوں کو زندگی کے ماڈل کی تربیت دیتا ہے تو انسانوں کے ماضی سے عمل درآمد کردہ رسم و رواج، عادات کو ایک بڑی سطح پر برقرار رکھنے کا مشاہدہ ہوتا ہے ایسا ہے کہ ان میں سے بعض کو مکمل طور پر خارج کر دیا، بعض میں بہتری لائی اور بعض کو اصلی شکل میں جاری رکھا ہے۔ مثال کے طور پر شراب نوشی کے عادت کی ماہیت حاصل کرنے والے کسی معاشرے میں اس کے مضر اثرات پر توجہ مبذول کرواتے ہوئے اس کی ممانعت کرنے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ سود، جُوا اور بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی طرح کے بُرے اعمال کا خاتمہ کیا گیا۔ اسلام سے قبل معاشروں میں موجود عادات و رسومات میں سے خریدو فروخت، یرغمال بنانا، شادی، طلاق، بدلہ ، وراثت اور اس سے مشابہہ متعدد قانونی معاملات کو جاری رکھا گیا تھا۔ حج کی طرح اسلامیت کی عبادت کی شکل سے مشابہہ عمل درآمد میں بھی اس چیز کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
اگر ماضی کی جانب نگاہ دوڑائی جائے تو قوانین قائم کرنے اور عمل درآمد میں رسم و رواج کے ناقابل انکار حقیقت کی جگہ مذہبی حقوقی نظام کے قیام اور اسلامی قانون سازوں کے اس ضمن میں پیش کردہ مؤقف کا بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ موجودہ رسم و رواج اسلامی قانون سازوں کے افکار و سوچ کے ظہور پذیر ہونے میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ویسے بھی قوانین وضع کرنے کی اہم شرائط میں سے ایک قانون سازوں کی انسانوں کی عادات و روایات سے آگاہی ہے۔
یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اماموں اور ان کی پیروی کرنے والے اسلامی قانون سازوں نے معاشرے کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وضع کردہ قوانین میں اس معاشرے کے اپنائے گئے رسم و رواج کے مؤثر ثابت ہوئے اور اسلام کے منافی نہ ہونے کی شرط پر بعض رسومات کو اسی شکل میں برقرار رکھا گیا۔ دراصل مذہبی علماء کو ہمیشہ اس بات سے آگاہی رہی ہے کہ وقت اور جگہ کا فرق اسلامی معلمین کے قوانین وضع کرنے میں ہمیشہ مؤثر رہ چکا ہے۔ اس بنا پر اسلامی قانون ساز، اسلامی تعلیمات دینے والوں کے ہمیشہ اپنے رسم و رواج کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے قانون وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے چلے آئے ہیں۔مالکی مذہب کے فقہ اور تفسیر کے عالم کا تعلق قرافہ سے ہونے کے جواز میں "قرافی" کے نام سے یاد کیے جانے والے احمد بن ادریس نے اس موضوع کی اہمیت کو ان الفاظ کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ "اگر تیرے علاقے سے تعلق نہ رکھنے والا کوئی شخص تمھارے پاس آئے تو پھر اپنے ملک کے رسم و رواج کے مطابق اور اپنی کتابوں میں تعین کردہ معاملات کو بالائے طاق رکھتے اس شخص کے لیے کوئی حکم صادر نہ کرنا۔"
حقوق اسلامی اصولیات کے شعبے کی اہم شخصیات میں سے ایک شاطیبی نے ریت و رسم و رواج کا مصلحت کے اعتبار سے جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی توضیح کی ہے کہ عادات و رسومات کو بالائے طاق رکھنا لازم و ملزوم ہے۔ ان کے مطابق رب العالمین نے مذہبی قوانین کا تعین کرتے وقت سماجی مفادات کو نظر انداز نہیں کیا۔چونکہ شریعت کا نفاذ ہر کسی کے لیے مساوی شکل میں ہونے کی بنا پر ہر کسی کا فرض ہے کہ وہ ان اصولوں پر توجہ و دھیان دے۔ ایک دوسرے عالم ابنِ قیم نے ماضی کے قانون سازوں کے قوانین وضع کرنے کے وقت رسومات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنے کی وضاحت کی ہے اور بعض احادیث کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے ا س جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ ان عوامل کو بھی بالائے طاق رکھنا واجب ہے۔انہو ں نے مفتیوں کو فتوی جاری کرتے وقت اس دور کے رسم و رواج اور روایات پر غور کرنے ، اور روایات میں تبدیلی لاتے وقت نئی روایات پر بھروسہ و اعتماد کی ضرورت کا مشورہ دیا ہے۔
یہاں پر اس چیز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اسلامی تعلیمات و اصولوں نے اپنی بنیاد و اساس کے برخلاف نہ ہونے والے سماجی حقائق کی مخالفت نہیں کی، بلکہ اس کے بر عکس ان کو قانونی حیثیت دلائی ہے۔ اس وجہ سے روایات و رسومات کی ماہیت حاصل کرنے والے سماجی برتاؤ و قواعد و ضوابط دینی اصولوں کی پامالی نہ کرنے تک لاگو ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اسلامی علماء نے معتبر دلائل کی حیثیت حاصل کرنے کے زیر مقصد بعض شرائط کا تعین کیا ہے۔ ان میں سے ایک، ملحوظ ِ خاطر رکھے جانے والی رسم کے قرآن کریم یا پھر سُنتِ نبوی کی تعلیمات کے برخلاف نہ ہونے پر محیط ہے۔ دوسری شرط کے مطابق بھروسہ کی جانے والی رسم کا معاشرے میں عام ہونا لازمی ہے۔ یعنی اس ریت کا طویل عرصے سے وسیع پیمانے پر اطلاق ہونا شرطیہ ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ کسی قانونی چارہ جوئی کےاثناء اس کا نفاذ ضرور ہونا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ زیر غور لائی جانے والی رسم کے اطلاق کےوقت اس کا پہلے سے ہی وجود موجود ہونا لازمی ہے۔ جبکہ چوتھی شرط کی رو سے مذکورہ ریت کا کسی خاص علاقے یا پھر طبقے سے تعلق ہونے کے بجائے زیر بحث تمام تر معاشرے کے لیے یکساں ہونا مقصود ہے۔
اوپر بیان کردہ موضوع کا لب لباب کچھ یوں ہے:" پیغمبر حضرت محمدﷺ کے زمانے سے لیکر ابتک کے زمانے پر محیط عرصے میں قانون سازوں نے اسلامی تعلیمات کو وضع کرتےوقت اس دور اور معاشرے کے مطابق مختلف قوانین اور اصولوں کو وضع کیا ہے۔ چونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی رسم و رواج اور عادات میں تغیر ایک ناگزیر فعل ہے۔یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ ظہور پذیر ہونے والی رسومات میں بنی نو انسانوں نے مشکلات اور کٹھن چیزوں کو دور کرنے کو بالائے طاق رکھا ہے۔ اسی طرح روایات پر مبنی قوانین اور اصولوں میں بھی تبدیلیوں کا معاملہ سلسلہ جدیدیت میں پیش آنے والے مسائل کے حل چارے کے طور پر انسانوں کے لیے فائدہ مند ہونے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زیر بحث لایا جانے لگا ہے۔ تا ہم اس سلسلے میں اسلامی قانون سازوں کے ہمیشہ حوالہ دی گئی فوائد کی سوچ ، دین کی بعض کائناتی اقدار میں لرزش پیدا کی ہے۔برے نتائج جنم لے سکنے کی سوچ کے ساتھ ان پر بعض اوقات عدم اعتماد کا بھی مظاہرہ ہوا ہے۔ اس لحاظ سے حالیہ دور کی بعض اسلامی روشن خیال شخصیات، قرآن اور سنت کی تعلیمات کے رسومات پر انحصار کرنے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، معاشرے کی طرف سے اپنائے گئے اورسماجی بنیادوں کا مجموعہ ہونے کا یقین ہونے والی رسومات کو مندرجہ بالا دو ذرائعوں کے بعد دوسری دلیل کی حیثیت سے قبول کرتی ہیں۔ یہ بیک وقت معاشرے میں اپنائی گئی یا پھر رد کردہ رسم کو فائدہ یا نقصان کی پیمائش کے طور پر بھی بیان کرتے ہیں۔



ٹیگز:

متعللقہ خبریں