دین اور معاشرہ 30

تہذیب اور اسلامی اقدار کا موازنہ

71797
دین اور معاشرہ 30

ہماری سماجی زندگی سے قریبی طور پر تعلق رکھنے والا ایک تاریخی چیز تہذیب اور ہمارے تہذیبی علاقے ہیں۔تہذیب لفظ کا مفہوم شہر اور شہری ہیں۔اگر علم فلسفیات کے لحاظ سے اس کا تعلق قائم ہونے والے نظریات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ مدنی کی اصطلاح سماجی اور سیاسی امور پر مبنی ہے۔ "معینہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے شہروں میں مقیم عوام" مفہوم کے حامل مدنی لفظ سے ماخوذ مدنیت لفظ کو آج کل بھی اسی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ بھر کے دوران حاصل کردہ مفہوم اور معنی کا مشترکہ مفہوم، شہری زندگی کے سماجی، سیاسی، ذی فہمی، فنی اور اقتصادی شعبہ جات میں ممکنہ حد تک اعلی سطحی مواقع اور وسائل سے استفادہ کرنا ہے۔
مدنیت و تہذیب سے تعلق رکھنے والی اصطلاح کے موضوع پر فارابی کے ان خیالات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ انسان کے واحدانہ طور پر اپنی ضروریات کو تعاون، باہمی امداد اور کام کاج کے دائرہ کار میں پورا کر سکنے اور اپنی منفرد صلاحیتوں تک کے حصول کے لیے کسی خاص نوعیت کی سماجی زندگی کو تشکیل دینے کی مجبوری کو مدنیت کہنا ممکن ہے۔تعاون اور باہمی تعلقات کے لیے کسی معاشرے کو جنم دینے والے انسان اپنی طرف سے تشریح کردہ خوشنودی کے حصول کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں۔اصل مفہوم کی حامل خوشی و مسرت کو مقصد بنانے والے معاشروں کی سوشیو پولیٹیکل زندگیوں کو چاہے کسی سطح پر ہی کیوں نہ ہوں انہیں حسن اخلاقی کے طور پر ہی یاد کیا جانا چاہیے۔ چونکہ عظمت خوشی و خوشنودی کو حقیقی مفہوم دلانے والی ایک قدر ہے۔ یہ قدری نظام ما فوق الطبیعیات سے علم کائنات، علم کائنات سے لیکر اخلاقی اور سیاسی پہلوؤں کے حامل نظریے اور عمل درآمد کو کسی خاص ماہیت میں ڈھالنے والے اصولوں کو تشکیل دیتا ہے۔ اگر کسی شہری باسی کی طرف سے اپنائے گئے اور نسل در نسل چلے آنے والے عالمی نظریے اگر وحی اترنے والے ایک بانی کی طرف سے عضع کیے گئے ہیں تو اس شہر کا نام انصاف کا شہر ہوگا۔ یہی صورتحال کسی قوم اور اقوام کے لیے بھی لاگو ہوتی ہے۔
اخلاقی اقدار کے فلاسفر مسکےویہھ نے انسانی مزاج اور فطرت کے مطابق اجتماعی طور پر زندگی بسر کرنے کا رحجان اور خواہش رکھنے والے ایک جاندار ہونے پر زور دیتے وقت اخلاقی عظمت و وقار کے محض مدنی زندگی کے ماحول میں ہی اپنی حیثیت کو حاصل کر سکنے کی وضاحت کی تھی۔ جبکہ ابنِ سینا نے اجتماعی زندگی کو سماجی تعلقات، انصاف کے اصولوں پر کار بند رہنے اور نبوت کے تقاضوں اور اعمال پر عمل درآمد سے وابستہ کیا ہے۔
دور حاضر میں تہذیبی اصطلاح کو بنیادی طور پر تین مختلف مفہوم میں لیا جاتا ہے۔ پہلا مفہوم "مدنی انسان " کا دوسرے کے ساتھ اچھے سلوک کا مظاہرہ کرنے کی خاطر انسان کے اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھنے والے اصول اور اقدار سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرا مفہوم ترقی یافتہ کے طور پر قبول کردہ معاشرے کو غیر ترقی یافتہ معاشرے سے جدا کرنے والی خصوصیات کا حامل ہے۔ اس مفہوم کے ساتھ تہذیب بنی نو انسانوں کے حاصل کردہ قدرتی سرمائے اور ترقی یافتہ ہونے کی سطح کی بھی تشریح کرتی ہے۔ تیسری اقدار، مشترکہ خصوصیات کا مظاہرہ کرنے والے سماجی گروہوں یا پھر ان سب کی سالمیت پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر قدیم مصری تہذیب، اسلامی تہذیب اور ہند تہذیب کے نام اسی زمرے میں آتے ہیں۔
تہذیب و تمدن کا لفظ مغرب میں پہلی بار سن 1757 میں فرانسیسی زبان میں زیر لب لایا گیا۔اس لفظ کا استعمال پہلے پہل فرانس میں اور بعد میں برطانیہ میں اعلی پائے کی زندگی کے طرز کو بیان کرنے والے "جدت کے حصول" کی شکل میں پھیلتا گی۔جس کی رو سے تہذیب حالیہ دو یا تین صدیوں میں مغربی ممالک کی جانب سے اپنے آپ کو اس سے پیشتر کے اور غیر مہذبی ہونے والے دیگر معاشروں سے مختلف اور آگے ہونے کا دعوی کردہ طرزِ زندگی کو دیے گئے نام کے طور پر منظر عام پر آئی تھی۔

مغربی دنیا تہذیب کی تشریح کچھ یوں کرتی ہے۔ پائے کی فنی خصوصیات، ٹیکنالوجی کا طریقہ استعمال، سائنسی علوم یا پھر عالمی نظریہ، گزشتہ دو صدیوں کے اندر منظر عام پر آنے والی اقدار ، ادارے اور اس سے مشابہہ متعدد چیزیں تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس اصطلاح کا شروع سے ہی اپنے اندر محیط کردہ نمایاں عنصر، مغربی دنیا کی کامیابیوں کو حسن کمال کے طور پر قبول کرتے ہوئے اس کے علاوہ کی ہر چیز کو مغرب سے پیچھے ہونے کے طور پر تصور کرنا ہے۔ بیسیویں صدی میں لڑی گئیں دو عالمی جنگوں اور ان کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والے نا امیدی کے بادلوں نے آہستہ آہستہ تہذیب کے حوالے سے اور مغربی تہذیب کے واحدانہ خط کے حامل کسی ارتقاء کے اندر وجود پانے والے ، انسانوں کے رسائی کر سکنے والے واحد اور ترقی یافتہ ترین طرز زندگی ہونے کے نظریے کے بارے میں شک و شبہات کو جنم دینا شروع کر دیا۔
سماجی زندگی کے مالی و روحانی تقاضوں کو کسی مکمل توازن کے ماحول میں پورا کرنے کو ممکن بنانے والی حقیقت پر مبنی کسی تہذیب و تمدن کا وجود صرف اور صرف اسلامی اقدار کو عملی جامہ پہنائے جانے کی بدولت ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
اسلام و تہذیب کے نظریے کے مابین کسی تعلق کا قیام، نا گزیر طور پر دینِ اسلام کی قائدانہ اور رخ دینے والی اقدار کو بالائے طاق رکھنے کا کا مفہوم رکھتا ہے۔ کیونکہ اسلام، انسانوں کی زندگیوں اور تخلیق کردہ چیزوں کا ایک حصہ نہ ہوتے ہوئے ان کے لیے زمین ہموار کرنے والی، ثقافت و تہذیب کو قائم اور جنم دینے کا درجہ رکھتا ہے۔ دین اسلام کے بنیادی اور فیصلہ کُن ہونے کا پرانے وقتوں کے ساتھ ساتھ جدید ادوار میں زندگی بسر کرنے والے کئی مسلمان مفکرین دفاع کرتے چلے آئے ہیں۔
اسلامیت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ، رسائی ہونے والے انسانوں اور معاشروں میں تبدیلی لاتے ہوئے اس سے قبل وجود نہ پائے جانے والی نمایاں اور مشترکہ اقدار کا جنم پانا ہے۔ عصر حاضر میں اگر اسلامی محل و وقوع کا جائزہ لیا جائے تو علاقے، نسل، سماج اور ثقافت کے درمیان تضادات اور فرق چاہے کسی سطح پر ہی کیوں نہ ہوں، مسلمانوں کے مابین ان تمام چیزوں کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے ، ان سے کہیں زیادہ اہم اور اس سے ہٹ کر زیادہ مؤثر ہونے والی کسی مشترکہ اقدار کی موجودگی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
جب اسلامی تہذیب کا ذکر کیا جاتا ہے تو عمو می طور پر اہل اسلام کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی مادی و معنوی تمام تر کامیابیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دین اسلام کو کسی ثقافتی عنصر کے طور پر نہیں بلکہ ثقافتی حدود کو بھی پار کرتے ہوئے مسلمان شخص کو کن چیزوں پر عمل درآمد کرنے کی رہنمائی کر نے والے ایک اصول کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام کی وحیوں کا تاریخ کو دیا گیا رخ، موجودہ دور کے تحقیق دانوں کی طرف سے تہذیب اسلامی کے نام سے منسوب کردہ تاریخی تجربات اور سرمائے کو منظر عام پر لانے میں معاون ثابت ہوا ہے۔
ہر تہذیب کی طرح اسلامی تہذیب بھی تاریخی منظر عام پر آنے کے وقت اپنے علاوہ کے سرمائے کی تنزل کا موجب بنا تا ہم قلیل مدت کے اندر اس نے ہر میدان میں اپنی منفرد اقدار کو جنم دینا شروع کر دیا۔ اسلامی تہذیب کہہ کر یاد کیے جانے والے تاریخی واقعات کو اپنے اصلی نچوڑ کے ساتھ ان اصولوں کے وحی کے ساتھ نازل ہونے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لہذا اپنے شعبے میں نسبتاً کمزور پڑنے والی اس تہذیب کی راہ گزر کے تمام تر انسانوں کے لیے فائدہ مند ہونے کی شکل میں اصلی اصولوں کے ساتھ کسی صحت مندانہ رابطے سے گزرنے کو سمجھ لینا چاہیے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں