عالمی ایجنڈا ۔79

117663
عالمی ایجنڈا ۔79

ترکی اور پورے عالم اسلام میں مبارک ماہ رمضان کا آغاز ہو گیا ہے۔اس مقدس مہینے میں مسلمان ایک ماہ تک روزے رکھتے ہیں ۔مسلمان صرف طلوع افتاب سے پہلے اور غروب افتاب تک روزہ ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ تلاوت کلام پاک کرتے ہیں ،نفل پڑھتے ہیں خیرات ، صدقہ اور زکوۃ بھی دیتے ہیں ۔لڑائی جھگڑے ،غیبت اور دیگر ہر طرح کی برائیوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دراصل تھیوری کے طور پر ماہ رمضان کایہ فلسفہ ہے۔اس مہینے کے انسانوں ،معاشرے حتی کہ پورے عالمی نظام پر سنجیدہ اثرات موجود ہیں ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے ۔
۔۔ماہ رمضان کا ماحول انسان کو مادی اور معنوی لحاظ سےبالغ النظر بناتا ہے ۔اس بار روزے موسم گرما میں شروع ہوئے ہیں اور روزہ دار 17 ۔18 گھنٹے بھوکا پیاسا اور ہر طرح کی تفریح سے دوررہتے ہوئے عبادت کرتا ہے ۔وہ صابر اور ایک دیانتدار انسان بننے کی کوشش کیساتھ ساتھ پانی اور خوراک کی اہمیت کو بھی سمجھتا ہے اور اپنے جذبات پر قابو پا سکنے کی صلاحیت سے آگاہ ہوتا ہے ۔اس مہینے شب قدر کو قران کریم کا نزول ہو ا تھا۔اس لیے ماہ رمضان کو قران کا مہینہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گی ۔ 1500 سال سے چلی آنے والی قران کی تلاوت کی روایت قران کریم کو مزید اچھی طرح سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
ماہ رمضان کی سرگرمیوں کے انتہائی مثبت سماجی اور اقتصادی اثرات بھی موجود ہیں ۔روزہ زکوۃ اور صدقہ جیسی عبادتوں سے سماجی امداد باہمی کو قوت ملتی ہے ۔آپس میں پیار ومحبت ،عزت واحترام اور ہمدردی کے جذ بات بڑھتے ہیں ۔انسان ایک دوسری کو افطاری کرواتے ہیں ۔محلوں ،شہروں ممالک اور علاقوں کے درمیان سماجی اقتصادی اور نفسیاتی روابط کو فروغ حاصل ہوتا ہے ۔لیکن افسوس کہ مسلمان ممالک کے مابین ان مثبت تعلقات کی عکاسی نظر نہیں آتی ہے ۔رمضان کے مقدس مہینے کے باوجود افغانستان ،عراق اور شام سمیت بعض مسلمان ممالک میں خونریزی جاری ہے اور انسان مصائب کا شکار ہیں ۔مسلمان ممالک کے درمیان متعدد مسائل موجود ہیں ۔ان میں سرفہرست ماہ رمضان کے آغاز اور اختتام کی تاریخوں کے بارے میں پائے جانے والے اختلافات ہیں ۔یہ ممالک دس سال سے رمضان کے چاند نظر آنے کے بعد روزے رکھنے کے اعلان کے بارے میں پائے جانے والے اختلافات کو دور نہیں کر سکے ہیں ۔ ماضی کیطرح امسال بھی ترکی اور بعض ممالک نے 28 جون کو پہلا روزہ رکھا جبکہ دیگر ممالک نے 29 جون کو پہلا روزہ رکھا۔چاند نظر آنے کے مسئلے کو 1970 سے ابتک حل نہیں کیا جا سکا ہے ۔اگر مسلمان ممالک کے درمیان صرف روزہ رکھنے کی تاریخ کا مسئلہ ہوتا تو اس کی بھی زیادہ اہمیت نہیں تھی لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض ممالک میں مسلمان ایک دوسرے کو بے دردی سے قتل کر رہے ہیں ۔حتی کہ یہ ہلاکتیں دین اسلام میں کوئی جگہ نہ رکھنے والےشعیہ اور سنی مذہب جیسے سیاسی مقاصد کے لیے کی جا رہی ہیں ۔حضرت محمدّصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ماہ رمضان میں کسی قسم کے ہتھیار کو استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور جنگوں کو روک دیا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں مسلمان اس کو ئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں ۔رمضان کی روح اور مقاصد سے ہٹ کر شام ،عراق اور افغانستان میں مسلمان اپنے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں ۔
بلاشبہ ان مسائل کے پیدا ہونے میں عالمی سیاسی پہلو بھی شامل ہے ۔یعنی اس مسئلے کا صرف مسلمان ممالک اور برادریوں سے تعلق نہیں ہے ،انھیں اپنے اثر میں لینے والا اور ان کی دسترس سے باہر ایک عالمی سسٹم موجود ہے ۔بلاشبہ یہ بھی ایک اہم عنصر ہے لیکن اسے مسلمان ممالک کے درمیان جنگوں اور جھڑپوں کے جواز کے طور پر نہیں دکھایا جانا چاہئیے ۔ایک ہی قران اور پیغمبر پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کو عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے رمضان جیسے مقدس مہینے میں قران و سنت کے احکامات پر عمل درآمد کرنے اور سیاسی اختلافات سے ہٹ کر مخالف فریق کو مسلمان بھائی کی نظر سے دیکھتے ہوئے باہمی مسائل کو امن و امان کیساتھ حل کرنے کی ضرورت ہےکیونکہ امن کا قیام دین کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے۔
ماہ رمضان کی روح کے انسانی ،معاشرتی اور عالمی سطح پر مثبت نتائج خونریزی اور مظالم کیوجہ سے اپنا اثر کھو بیٹھتے ہیں ۔مسلمان ممالک کے درمیان جھڑپیں انسانوں کی افطار ی اور سحری کی خوشیوں کو ملیا میٹ کر دیتی ہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں