دین اور معاشرہ ۔ 25

اسلام کی رو سے حلال و حرام کی تمیز

114109
دین اور معاشرہ ۔ 25

دینوں کے اپنے اصولوں کے مطابق بعض چیزوں کی ممانعت پائی جاتی ہے۔ ان کو بعض اوقات متعلقہ اداروں کی وساطت سے پورا کیا جانے کے وقت بعض سماجی اخلاقی اصولوں کے دائرے میں ان کا حل چار تلاش کیا گیا ہے۔ ان کا وجود تاریخ سے قبل کے ادوار سے چلا آرہا ہے۔ اندرونی تفصیلات مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دین اور ہر معاشرے میں عزت و احترام دی جانے والی پابندیاں پائی جاتی ہیں۔اسلامی قوانین میں پابندیوں کا اظہار کرنے کے لیے حرام کا نظریہ استعمال کیا جاتا ہے۔ حرام چیزیں بعض لوگوں کی طرف سے ادراک کیے جانے والے بعض مقاصد اور فوائد پر مبنی ہوتی ہیں تو یہ اس دوران اندازا نہ ہونے والے بعض حکمتوں کو بھی اپنے اندر پوشیدہ رکھے ہوتی ہیں۔اسلام میں حرام قرار دیے جانے والے معاملات اور عوامل کو بیک وقت ایمان کے مسئلے کی حیثیت سے بھی ایجنڈے میں لایا جاتا ہے اور اس طرح قطعی طور پر علم ہونے والی حلال چیزوں کو حرام یا پھر حرام چیزوں کو حلال کے طور پر قبول کیے جانے کو ایمان کے ضائع ہونے کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
دین و مذہب میں کسی فعل کے حرام ہونے کو مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی چیز کے حرام ہونے کا اظہار کرنے کے لیے بعض اوقات قانونی یا جائز نہ ہونے کو قطعی الفاظ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ حرام چیزوں کو حرام قرار دینے والے اعمال یا پھر چیزوں کی ماہیت، دلائل کی طاقت اور پابندی عائد ہونے والی چیزوں کو مختلف اجزا میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلا معاملہ بلا کسی سبب کے کسی چیز کے وجود کے نقصان یا پھر برائی کے باعث براہ راست حرام کہی جانے والی چیزیں ہیں۔دوسری قسم بیرونی اسباب یا پھر صورتحال کی بنا پر حرام قرار دیے جانے والے عوامل پر مبنی ہے۔
اسلامی قانون سازوں کے مطابق کسی قطعی دلیل کے ساتھ ثابت ہونے والے کسی فعل کے کے حرام ہونے کا قطعی طور پر یقین کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل سنت کے مطابق ان فریضوں سے منکجر ہونے والا شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ غیر قطعی دلائل کے ساتھ حرام قرار دی جانے والی بعض ممانعتوں سے منکر ہونے والے یا پھر انہیں جائز قرار دینے والوں کو کافر نہیں فاسق کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
کسی حرام عمل کے مرتکب یا پھر اس طریقے سے ناجائز کمائی کمانے والے افراد کو گناہوں کا کفارہ کرنے کے لیے بعض چیزوں پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔ مذکورہ ناجائز فعل یا پھر کمائی کسی دوسرے یا تیسرے فریق کے حق و حقوق سے تعلق رکھتی ہو تو اولین طور پر انہیں ان کے مالکین کو واپس کرنے یا پھر دو طرفہ رضامندی کے دائرہ کار میں ان کے ساتھ سمجھوتہ طے کرنا لازمی ہے۔ بعد میں سر زد کردہ گناہوں کے باعث اللہ تعالی سے معافی مانگنی ہو گی۔ ناجائز طریقے سے کمائے جانے والی مال و دولت کو اس کے اصلی مالک تک لوٹانا لازم و ملزوم ہے۔ اگر اس شخص کا انتقال ہو چکا ہو تو پھر اس کے وارثوں کو یہ مال لوٹانا ہو گا۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر فقیر و غریب میں تقسیم کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔ علاوہ ازیں ناجائز اور غیر حق بجانب کمائی کو غرباء میں تقسیم کرنے والے شخص کو اس عمل سے کسی قسم کے ثواب کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ حرام طریقوں سے کمایا گیا مال اگر سرکار کی ملکیت ہو تو اسے حکومت کو لوٹانا یا پھر عوام کے فائدے کے لیے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
فقہی شرائط کو دینی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ زیر بحث لانے والے بعض عالمین ہر طرح کے حرام فعل کو ممنوع اور برے قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو برے سے زیادہ بُرے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔اس قسم کی درجہ بندی اسلامی قوانین کو دینی خصوصیات کے ساتھ حقوقی اور اخلاقی تعلق کو بیان کرنے کے لحاظ سے اہم ہے۔
پہلا پہلو انصاف والے اور پاکیزہ دامن مومنوں کی طرف سے اجتناب برتے گئے اور فقہ سے متعلق کتب میں حرام تصور کردہ برتاؤ ہیں۔ ان سے گریز کرنے والے ناانصافی کرنے والے، فاسق اور گناہ کار کہلاتے ہیں۔ اس قسم کے حرام کاموں کی آخرت میں سزا ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی سزائیں بھی پائی جاتی ہیں۔
دوسرا پہلو صالح انسانوں کے بچنے والے حرام کام ہیں۔یہ ظاہری کو دیکھتے ہوئے جائز شمار کیے جانے کے باوجود حرام ہونے کے احتمال اور شبہے کےساتھ پرہیز کیے جانے والے اعمال ہیں۔ اس قسم کے معاملات میں کسی خاص سطح کا شک و شبہہ موجود ہو اور اس عمل کے حرام ہونے کا احتمال قوی ہو تو پھر اسے حرام کے طور پر قبول کرنا اور اس سے اجتناب برتنا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض کمزور احتمال یا پھر شک و شبہات کے باعث جائز اعمال پر پابندی عائد کرنا بھی ایک صحیح فعل نہیں ہے۔ اس قسم کا مؤقف نہ صرف حقوقی زندگی کو مشکلات سے دو چار کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شک و شبہات کو موقع پیدا کرنے والے مختلف وسوسے انسانوں کی نفسیات پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ تقوی کے حامل انسانوں کے اجتناب برتنے والے رویے ہیں۔ کسی فعل کا ارتکاب کرنے یا حاصل کرنے کے طریقہ کار میں بعض برائیوں کی موجودگی یا پھر اللہ تعالی کی رضا مندی کو نظر انداز کرنے والے بعض افراد سے دور رہنا ہو گا۔اس قسم کے رویے مثبت حقوق سے ہٹ کر تصوف اور اخلاقی زمرے میں آتے ہیں۔
حرام چیزوں سے متعلق اگر عمومی اصولوں کا ذکر کیا جائے تو ان کو چند اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ حرام کا تعین کرنا اور حقوق اور اختیارات صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔اپنے ذرائع کے اعتبار سے ایک آسمانی دین ہونے والے اسلام میں قطعی طور پر ممانعت ہونے والے یا پھر آزاد چھوڑے گئے عوامل کو بذات خود اللہ تعالی نے وضع کیا ہے اور اس کے اختیارات کا مالک خالق حقیقی ہی ہے۔
2۔ کسی چیز کے حرام ہونے کی دلیل کے سامنے آنے تک اس چیز پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ہوتی ہے۔ یعنی حرام ہونے کے حوالے سے کوئی قطعی دلائل پیش کرنے والی کوئی سچ معلومات سامنے نہ آسکیں تو اس موضوع کو دلائل کی روشنی میں ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔

3۔ نیک نیتی حرام چیز کو جائز قرار نہیں دے سکتی۔ اسلام میں عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے آلہ کار کا بھی مقصد کے مطابق جائز ہونا لازمی ہے۔ اس بنا پر حلا ل اور صاف ستھری کمائی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اور ناجائز طریقوں سے رزق کمانے سے منع کیا گیا ہے۔
4۔ حرام چیز کی جانب لیجانے والے اسباب اور راہیں بھی حرام تصور کیے جاتے ہیں۔
5۔ حرام کا شک ہونے والی چیزوں سے اجتناب برتنا لازم و ملزوم ہے۔ اسلام کی طرف سے حلال و حرام کی واضح طور پر تشریح کی گئی ہے تو ان دونوں کے بیچ شک و شبہات والے اعمال کے حامل معاملات بھی پائے جاتے ہیں۔ بنی اکرم ﷺ نے ان سے اجتناب برتنے کو دین اور عزت کے تحفظ کے لیے کہیں زیادہ پختہ راستہ ہونے اور اس چیز کا ارتکاب کرنے والوں کے حرام کے قریب تک پہنچنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ اس بنا پر حرام اشیاء سے گریز کرنا قانونی نظام کی عمومی اور غیر جانبدار سطح سمیت انسانوں کے عملی اندیشوں کو بھی اہمیت دیتے ہوئے حقوق، اخلاق اور دین کے مابین تعلق و رابطے کے قیام اور انسانوں کی روحانی تسکین کو بھی بالائے طاق رکھا گیا ہے۔
6۔ ضروریات حرام کو آزادی دلاتی ہیں۔ اسلامی قوانین میں حرام کے دائرہ کار کو تنگ رکھنے کے ساتھ ساتھ بعض فطری اور دائمی نہ ہونے والی بعض حیاتی ضروریات کی بنا پر اس دائرے کی حدود کو زیادہ تنگ کرتے ہوئے ضرورت کی سطح کو اولیت دی گئی ہے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں