ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 25

110241
ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 25

ضلع حاتائے بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر آباد ہے کہ جس کے مشرق اور جنوب میں شام ، شمال مشرق میں غازی آنتیپ، شمال اور شمال مغرب میں ادانہ اور عثمانیہ اور مغرب میں خلیج اسکندرون واقع ہے ۔ حاتائے کی مرکزی تحصیل انطاقیہ سمیت ضلع میں بارہ تحاصیل موجود ہیں۔ حاتائے ماضی میں مختلف تہاذیب کا گہوارہ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں ان کے رنگ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حاتائے کا موسم گرم مرطوب ہے جہاں گرمیوں میں گرمی اور سردیوں میں موسم اکثر بارانی رہتا ہے لیکن پہاڑی علاقوں میں موسم کے بالکل مختلف ہوتا ہے۔
انتی کیا کا قدیم شہر توروس کوہساری سلسلے کے ساتھ ساتھ حبیبی نجار نامی پہاڑ کے دامن میں اور دریائے آسی کے کنارے آباد ہے ۔ لبنا ن میں واقع پہاڑی سلسلے سے بہنے والا دریائے آسی انطاقیہ کے وسط سے گزرتے ہوئے کوہ سمان کے راستے بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ علاقے کی قدیم ترین آبادی تل طائینات اور طل آتچانا آلا لاکھ تھی ۔ علاقے میں کی جانے والی کھدائی کے نتیجے میں کانسی اور کالکولیتیک ادوار سے وابستہ نوادرات بازیاب کیے گئے ہیں۔
تاریخی شہر کے حوالے سے کافی دلچسپ اور اہم ترین واقعات مشہور ہیں جو کہ سکندر اعظم سے وابستہ ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سکندر اعظم جنگ ایسوس کے بعد مصر جانے کی غرض سے یہاں واقع ایک پانی کے چشمے کے پاس پڑاو ڈالتا ہے اسے یہاں کا فرحت بخش پانی اتنا پسند آتا ہے کہ یہاں وہ ایک شہر آباد کرنے کا ارادہ کرتا ہے ۔ اس طرح سے یہاں آنتی کیا کا تاریخی شہر آباد ہوتا ہے۔ اس شہر پر دیوتا زیوس اور دیوی تائیک کا حکم چلتا ہے ۔ کی جانے والی کھدائی کے دوران یہاں سے بعض سکے بھی دریافت کیے گئے ہیں کہ جن پر تائیک دیوی کی شکل کندہ ہے جس کے دائیں ہاتھ میں ایک چٹان ہے جبکہ بائیں ہاتھ میں گندم کی ڈال ہے ۔
قدیم شہر کو سکندر اعظم کے سپہ سالاروں میں شمار سیلیوکوس نیکاتور اول کی طرف سے آباد کیا گیا تھا ۔ سیلیوکوس شہر میں اس دور کے دوران کافی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں ۔ علاوہ ازیں ، علاقے میں حمام، مکانات، معبد جیسی عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں۔ شہر کی تعمیر نو آنتیو خوس چہارم کے دور میں کی گئی ۔ اس دور میں شہر میں پارلیمانی عمارت اور بعض معبد بھی موجود ہیں۔ چونسٹھویں صدی قبل مسیح میں اس شہر کو رومی سلطنت سے متصل کر دیا گیا جس کے بعد یہاں ترقی کا دور دورہ ہوا ۔ سلطنت روم کے فرماں روا تریان اور حادریان نے یہاں آکر شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیئے ۔ اس دور میں آنتی کیا کے اس شہر میں محلات، حمام، تھیٹر اور اکھاڑوں کی تعمیر کی گئی ۔
شہر کی اہمیت دور عیسائیت میں مزید بڑھ گئی تھی۔ آنتی کیا کے اس شہر میں پاولوس اور پیتروس نامی حواریوں کے نام بھی کافی مشہور ہیں۔ پیتروس نے یہاں پر مسیحیت کی تبلیغ کےلیے پہلا گرجا گھر قائم کیا ساتویں صدی میں آنتی کیا ،روم، اسکندریہ ،کوستانتینو پولس اور یرو شلم پر مشتمل مسیحیت کے پانچ مراکز قائم کیے گئے ۔
دوسری صدی میں اس شہر کی آبادی تین لاکھ افراد پر مشتمل تھی جو کہ روم اور اسکندریہ کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شہر تھا لیکن سن پانچ سو چھبیس میں ایک ہولناک زلزلے کی وجہ سے یہ شہر تباہ ہوتےہوئے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ۔ ساتویں صدی کے بعد علاقے میں عربوں کی آمد سے یہ شہر عربوں اور بازنطینی قوم کے درمیان بٹا رہا ۔ بعد ازاں اس علاقے میں مملوک اور سلچوک اقوام کا قبضۃ رہا جس کے نتیجے میں سن پندرہ سو سولہ میں یہ علاقہ عثمانیوں کے زیر تسلط آگیا ۔
قدیم اور اہم ماضی ہونے کے باوجود انطاقیہ میں قدیم آثار کی چند ہی امثال موجود ہیں جن کے درمیان سینٹ پیترویس کا گرجا گھر قابل ذکر ہے ۔ عیسائیوں کےلیے مقدس ترین مقام کے طور پر قبول کر دہ یہ گرجا گھر انطاقیہ اور ریحانلی کی شاہراہ پر دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس گرجا گھر کی طوالت تیرہ میٹر ،چوڑائی ساڑھے نو میٹر اور بلندی سات میٹر ہے جو کہ ایک غار کی شکل میں ہے ۔ سینٹ پیتروس نے سن انتیس میں مسیحیت کی تبلیغ میں کامیابی دیکھنے کے بعد کوہ حبیبی نجار کی ڈھلان پر اس گرجا گھر کو قائم کیا تھا کہ جس کے دہانے بعد ازاں یعنی آٹھویں صدی میں ایک دیوار تعمیر کرتےہوئے اسے ایک گرجا گھر سے مشابہہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ گرجا گھر کی دیواروں پر آٹھویں صدی سے وابستہ بعض نقش و نگار اور موزائیک کے باقی ماندہ ٹکڑے بھی کھدائی کے دوران برآمد کیے گئے ہیں۔ گرجا گھر میں دو سو تا تین سو میٹر اندر ایک جگہ ہے جسے گناہ گاروں کا حمام کہا جاتا ہے۔
انطاقیہ شہر میں ہونے والی کھدائی کے دوران ، گرجا گھروں ، عہد روم کے مکانوں اور دیگر موزائیک کے بعض نمونے اس وقت انطاقیہ کے عجائب خانے میں محفوظ ہیں۔ یہاں سے برآمد ہونے والے موزائیک کی تعداد کی وجہ سے انطاقیہ کے عجائب خانے کو دنیا کے دوسرے بڑے عجائب خانے کا درجہ بھی حاصل ہے ۔ ان آثار کا تعلق دوسری اور چھٹی صدی سے وابستہ بتایا جاتا ہے کہ جن کی کثرت انطاقیہ ،حربیہ اور چیویک کے اطراف میں کی جانے والی کھدائی سے برآمد کی گئی ہے ۔
ان آثار میں مدہوش دیونیسوس ، اورفیوس، آریادنے اور بعض پھلوں اور پرندوں کی اشکال بھی شامل ہیں۔
انطاقیہ کے اطراف میں دور ت یول اور یشیل کینت کے درمیان سکندر اعظم کے ہاتھوں پارس قوم کے شکست خوردہ مقام ایسوس ، پایاس میں مسجد ، حمام، مسافر خانے اور بدستان جیسی تعمیرات سوکولو مہمت پاشا نے سن پندرہ سو پچھتر میں تعمیر کروائیں تھیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں