صحت و سیاحت 25

110264
صحت و سیاحت 25

ازمیر بحیرہ ایجیئن کے کنارے پانچ ہزار سال پرانا ترکی کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ صاف ستھرے ساحلوں ، معتدل آب و ہوا اور فطری خوبصورتیوں سے معروف یہ شہر بیک وقت اپنے تاریخی، فنی اور تجارتی تشخص سے بھی جانا جاتا ہے ۔ قدیم دور کے دو شہروں ایفیس اور برگاما کی میزبانی کرنے والا ازمیر گرم پانی کے چشموں کے حوالے سے بھی کافی مشہور ہے ۔
ازمیر کی ضلعی حدود میں گرم پانی کے چشمے بالچووا میں موجود ہیں کہ جہاں ملکی و غیر ملکی سیاح جوق در جوق آتے ہیں۔ گرم پانی ان چشموں کا شمار غالباً ترکی کے بہترین چشموں میں ہوتا ہے کہ جہاں ہر سال بالخصوص شمالی یورپ سے کافی سیاح رخ کرتے ہیں۔ بالچووا کا پرانا نام آگا میمنون تھا ،یونانی میتھولوجی کے مطابق اس شہر کا نام قدیم یونان کے سورماوں میں شمار میکانہ کے فرماں روا آگا میمنون کے نام پر رکھا گیا تھا۔ تاریخ دان ہومیروس نے اپنی ایلیادا نامی تصنیف میں بھی اس علاقے کا کافی ذکر کیا ہے جبکہ آگا میمنون کے نام کے پسِ پردہ بھی روایات موجود ہیں جن میں سے ا یک کچھ یوں ہے کہ شاہ آگا میمنون کی پری چہرہ بیٹی ایک دن شدید بیمار ہو گئی اور اس کا سارا جسم پھوڑوں اور دانوں سے بھر گیا ۔ اس مرض کو پھیلنے سے روکنے کی خاطر وہ اپنی بیٹی کو ایک ایسے مقام پر محصور کر دیتا ہے جہاں آج بالچووا واقع ہے ۔ شاہ کی بیٹی یہاں کے پانی کو پیتی ہے اس کی مٹی اور کیچڑ کو جسم پر ملتی ہے جس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہشاش بشاش اور صحت یاب ہو جاتی ہے ۔ ایک دیگر روایت کی رو سے دس سال جاری جنگ ٹروئے کے دوران شاہ آگا میمنون اپنی زخمی فوج کو ایک نجومی کی تجویز پر بالچووا بھیجتا ہے جو کہ کچھ ہی عرسے بعد صحت یاب ہو کر لوٹتی ہے جس پر آگامیمنون وہاں ایک شفا خانہ تعمیر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ان دونوں روایات میں سے کون سی درست ہے یہ تو معلوم نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے بالچووا کا یہ شفا بخش پانی تین ہزار سال سے بعض امراض کامداوا بن رہا ہے۔
۔ قدیم دور کے تاریخ دان ہومیروس اور نامور ماہر جغرافیہ اسٹرابون نے اپنے قصوں میں اس علاقے کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔مثال کے طور پر تاریخی ذرائع کے مطابق سکندر اعظم کی فوج نے بھی اس علاقے میں کچھ عرصے قیام کیا ہے لیکن بعد کے ادوار میں اس علاقے کی شہرت کچھ ماند پڑ گئی تھی ۔ اس کے بعد سن سترہ سو تریسٹھ میں الفنٹ میل نامی ایک فرانسیسی شہری کی بدولت یہ علاقہ دوبارہ سے اپنی شناخت حاصل کر بیٹھا ۔ میل نے اس دور میں علاقے کا دورہ کرتےہوئے آگا میمنون کے تاریخی گرم پانی کے چشموں کو دوبارہ سے دریافت کیا ۔ اس تاریخ کے بعد بالچووا کی از سر نو تزیئن و آرائش کی گئی اور عوام نے ان پانیوں سے مستفید ہونا شروع کر دیا ۔بعد کے ادوار میں یہاں ہوٹلوں کی تعمیر کی گئی جس سے لوگوں کی آمد میں بھی اضافہ ہو نے لگا۔
بالچووا کے ان گرم پانی کے چشموں کا درجہ حرارت تریسٹھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو کہ پینے اور نہانے کے قابل ہے اس کے علاوہ یہاں اس پانی سے بننے والے کیچڑ کو بھی جسم پر ملا جاتا ہے کہ جس میں شامل سوڈیئم بائی کاربونیٹ اور کلورین کی وافر مقدار امراض تنفس ، جوڑوں کے درد اور نظامِ ہضم میں خرابی سمیت جلدی امراض میں مفید ہے ۔
بالچووا میں موجود ہوٹلوں میں ہر سال پانچ لاکھ کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی زائرین آتےہیں جو کہ شہر کی گہما گہمی سے دور فطری مناظر کے دامن میں پر سکون تعطیلات گزارنے کا موقع حاصل کرتے ہیں۔ یورپی ممالک کی کثیر تعداد خاص کر شمالی یورپی ممالک سے آنے والے گٹھیا کے مریضوں کا یہاں علاج بیمہ کمپنیوں کی طرف سے کروایا جاتا ہے۔ مریض یہاں اپنا علاج کروانےکے ساتھ ساتھ ازمیر کے خوشگوار موسم کا بھی لطف اٹھاتے ہیں۔ مریضوں کو یہاں فیزیو تھیراپی اور دیگر طریقہ علاج کی بھی سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ بالچووا کا یہ علاقہ ازمیر کے بینی الاقوامی ہوائی اڈے سے صرف پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے کہ جہاں ان مراکز کے علاوہ ایک جدید طرز کا اسپتال بھی موجود ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں