ترکی کی تاریخی ، سیاحتی و ثقافتی اقدار 22

85359
ترکی کی تاریخی ، سیاحتی و ثقافتی اقدار 22

ضلع مرسین کے مشرق میں ادانہ ،مغرب میں انطالیہ ،شمال میں نیعدے قونیا اور قارامان اور جنوب میں بحیرہ روم واقع ہے ۔ یہ شہر تین سو اکیس کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کا حامل ہے ۔ مرسین جزیرہ نما اناطولیہ کے جنوب میں واقع چوکوروا کے علاقے کا اہم ترین سیاحتی مقام بھی ہے۔ اس علاقے کو قدیم زمانے میں کیلیکیا کہا جاتا تھا ۔ ہیریدوتوس کے مطابق اس سے پہلے زمانے میں اسے ہائی پاکویا کہا جاتا تھا کہ جہاں فینیکے قوم کے فرما ں روا اگینور کے بیٹے سیلیکس نے قیام کرتےہوئے اس مقام کو کیلیکیا کا نام دیا ۔ کیلیکیا کا علاقہ قدیم دور میں پہاڑی اور وادی نما دو حصوں میں تقسیم تھا ۔ الانیہ اورمرسین کے درمیان مغربی جانب کا علاقہ پہاڑی جبکہ مرسین سے اسکندرون تک کا علاقہ وادی نما علاقوں پر مشتمل تھا ۔ دور حاضر میں ان علاقوں کو جزیرہ نما کوہساری کیلیکیا اور وادی نما علاقے کو چوکوروا کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ علاقے کا موسم بھی ان علاقوں میں مختلف نوعیت کا ہوتا ہے پہاڑی علاقوں میں موسم خشک ہوتا ہے جبکہ وادی نما علاقے کا موسم گرم مرطوب رہتا ہے۔
مرسین شہر کا ماضی نیو لیتیک اور کالکولیتیک ادوار سے وابستہ بتایا جاتا ہے کہ جس کا ثبوت غوزلو کولے اور یوموک تیپے میں کی جانے والی کھدائی ہے ۔ غوزلوکولے میں کی جانے والی کھدائی کے نتیجے میں یہاں سے حطیطی دور کے آثار ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ حطیطی فرما ں روا اسور سوئم کے بعد سیلو موسا اور پانچ سو اٹھائیسویں صدی قبل مسیح میں پارس قوم کے زیر قبضہ رہا ۔ تین سو چونتیسویں صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ سکندر اعظم کے زیر تسخیر رہا ،۔سابق یونانی دور میں مرسین کا نام زیفیریئم رہا اس دور میں علاقے میں تجارت کو فروغ حاصل رہا اور شہر میں ٹیکسال بھی قائم کی گئی ۔ بعد ازاں یہ علاقہ سلطنت روم کے زیر اثر رہا ۔ سلطنت روم میں اس شہر کا نام ہادریانیس اور بعد میں ہادریانوپولس رکھا گیا ، وسطی دور میں مرسین کی تاریخ سے متعلق تحریری مواد کی کمی تھی لیکن اتنا ضرور پتہ تھا کہ تارسوس اس علاقے کے اہم ترین مقامات میں شمار ہوتا تھا ۔
مرسین شہر کا نام فرزندان مرسین کے قبیلے یا اس علاقے میں کثرت سے پائے جانے والے درخت مرسین سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس کے قبضے میں آنے والا مرسین سن انیس سو بائیس میں آزاد کروا لیا گیا جس کے بعد سن انیس سو چوبیس میں اس شہر کو ضلع کے درجہ دے دیا گیا ۔ سن انیس سو تینتیس میں اچیل کے نام سے ایک ضلع تشکیل دیتےہوئے مرسین کو اس کی حدود میں شامل کر دیا گیا ۔
مرسین کا ساحلی علاقہ ترکی کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں شمارہوتا ہے علاوہ ازیں یہ علاقہ تاریخی اور مذہبی اعتبار سے بھی زیارت کے لائق ہے ۔
مرسین کے اہم ترین مقاما ت میں تارسوس شامل ہے جو کہ مرسین اور ادانہ کے درمیان واقع ہے ۔ یہ علاقہ ماضی میں میتھولوجی کے حوالے سے کافی اہمیت کا حامل رہا ۔ بعض ذرائع کے مطابق اڑنے والا گھوڑا پیگاسوس کیلیکیا کے علاقے میں اپنا راستہ بھٹکتےہوئے ٹانگ کو زخمی کر بیٹھا جس کے نتیجے میں اس علاقے کا نام تارسوس پڑا جس کے لاطینی زبان میں لغوی معنی پیر کے تلے کے ہیں ۔
میتھولوجی ذرائع کے مطابق، اس شہر کی آباد کاری میں ہیراکلیس اور پرسیوس کے نام بھِ قابل ذکر ہیں۔
اسٹرابون کے مطابق ، تارسوس شہر کو تاریخ دور میں ایک اہم ثقافتی و علمی مرکز کا درجہ حاصل تھا
کہ جس کا مقابلہ اس دور کے اسکندریہ اور ایتھنز سے با آسانی کیا جا سکتا تھا ۔ تاریخ دان آنتونیوس اپنی کتاب میں بتاتا ہے کہ اس شہر میں اس وقت ایک بہت بڑا کتب خانہ بھی موجود تھا جبکہ ایک دیگر تاریخ دان پلوکارتھوس کی رو سے قلو پطرہ ،مارکوس انتونیوس نے بھِ اس علاقے کی سیر کی تھی ۔
سترہویں صدی میں اس شہر کی زیارت کرنے والے ترک سیاح اولیا چیلیبی نے یہاں کی عمارتوں یعنی تارسوس کے قلعے، پرانی مسجد اور گیری بوز نامی دروازے کا ذکر کرتےہوئے اپنے سیاحت نامے میں بتایا ہے کہ پرانے وقتوں میں اس مسجد کی جگہ ایک گرجا گھر ہوا کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ یہاں پر پانچ گرجا گھر ، چھہ مدرسے ، دو حمام ، دو مسافر خانے اور تین سو سترہ دوکانیں بھی موجود تھی جبکہ یہاں پیدا ہونے والے میٹھے لیموں ، انجیر، کھجور اور کپاس بھی کافی مشہور ہوا تھی ۔
تارسوس شہر کی زیارت مذہبی حوالے سے بھی کافی اہم ہے ۔ انجیل کے مصنفین میں شمار سینٹ پاولوس کا آبائی شہر بھی تارسوس بتایا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے سینٹ پاولوس گرجا گھر کو ایک مقدس مقام قبول کرتےہوئے مسیحی برادری یہاں زیارت کےلیے آتی ہے ۔بعض مختلف روایات کے مطابق قرن کریم کی سورہ کھف میں ذکر کردہ سات حواریوں سے متعلق غار بھی یہی موجود ہے ۔
تارسوس میں واقع اولو جامع مسجد ، شاہ مران حمام،قلو پطرہ کا دروازہ ، رومی حمام اور سکندر نامی حمام بھی یہاں کے قابل ذکر مقامات میں شامل ہیں۔
نور مسجد یا اولو مسجد تارسوس شہر کے مرکز میں واقع ہے کہ جسے سن پندرہ سو اناسی میں فرزندان رمضان میں شمار پیر پاشا کے بیٹے ابراہیم بے نے تعمیر کروایا تھا ۔ دور سلچوک اور عثمانی کے فن تعمیر کی عکاس اس مسجد کو ایک پرانے گرجا گھر کے باقی ماندہ کھنڈرات پر تعمیر کیا گیا تھا ۔ مسجد کے سولہ عدد گنبدہیں کہ جس کے مشرقی حصے میں حضرت سید اور حضرت لقمان سمیت عباسی دور کے خلیفہ میمون کے مزار واقع ہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں