دین اور معاشرہ ۔ 22

85416
دین اور معاشرہ ۔ 22

ہم آج کی قسط میں الہٰی کتابوں کی آخری کتاب قرآن کریم سے بعض معلومات گوش گزار کریں گے۔
قرآن لفظ کو عمل میں لانے والے بنیادی لفظ کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔اس لفظ کے مفہوم کے"اللہ تعالی کی طرف سے جبرائیل کی وساطت سے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر نازل کردہ، تواتر کے ساتھ حفظ کرواتے ہوئے تحریری شکل دی جانے، پڑھنے سے عبادت کا مفہوم رکھنے ، سورہ فاتحہ سے شروع ہوتے ہوئے سورہ ناس کے ساتھ ختم ہونے ، کسی دوسرے کی طرف سے اس طرح کی کسی مقدس کتاب کو نازل کرنے سے قاصر ہونے اور عربی زبان میں معجزہ لفظ پر مبنی ہیں۔اس کے مطابق حضرت محمد ﷺ پر نازل نہ کی جانے والی کتاب اور صفحات پر درج شدہ قرآن مجید کا ترجمعہ یا پھر قرآن کے معنوں کو عربی زبان میں دوسرے الٖفاظ کے ساتھ درج کردہ کتاب ، حضرت عثمان مشاف کی خطاطی سے موزوں نہ ہونے والی قرآت اور قدسی احادیث کو قرآن سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
قرآن مجید کا حضرت محمد مصطفی پر نزول چالیس برس کی عمر میں شروع ہوتے ہوئے آپ کی وفات تک یعنی 23 برسوں تک جاری رہا۔ مختلف حصوں میں اُترنے والی قرآنی آیات کو ایک جانب سے کاتبین کی طرف سے درج کروائے جانے کے وقت دوسری جانب سے مسلمانوں کے حفظ کرنے کو بڑی اہمیت دی گئی تھی۔ حضرت عمر ؑ کی تجویز پر حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں قرآن کے تمام تر حصوں کو بلا کسی کمی بیشی کے ایک کتاب کی صورت میں یکجا کیا گیا۔ دو سر ورق کے درمیان یکجا کردہ تحریروں کو "مشاف" نام دیا گیا، اس کتاب کو حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عمر تک اور ان کی بھی وفات کے بعد ان کی دختر اور بنی اکرم کی زوجہ مبارکہ حضرت ہافصہ کے سپرد کیا گیا۔ خلیفہ عثمان کے دور میں اس نسخے کی کئی کاپیاں بناتے ہوئے انہیں اہم علاقوں کو بھیجا گیا۔
قرآن کریم جو کہ مکمل طور پر اللہ تعالی الفاظ کا حامل ہے کو عرب معاشرے کے مختلف برتاؤ اور مؤقف، ضروریات، واقعات کے ظہور وغیرہ کی صورتحال اور مختلف حالات کے تقاضے کے مطابق آیا ت یا پھر سورتوں کی شکل میں اُتارا گیا۔ اس بنا پر کسی موضوع کو تکمیل دینے والی کسی ترتیب کا مشاہدہ نہیں ہوتا۔ اس کی ترتیب باقاعدہ شکل کے شہہ پاروں سے مختلف نوعیت کی ہے ، اور اس کے اجزاء کو تشکیل دینے والے معاملات مُشاف کے آغاز سے آخر تک پھیلے ہوئے ہیں۔لہذا قرآنِ کریم کی وضع کردہ ترتیب کے ساتھ اس کو پڑھنے والا شخِص بیک وقت ایک سے زیادہ موضوعات پر آگاہی حاصل کرتا ہے۔
تمام تر خدائی مقدس کتابوں کو وحی کے ذریعے پیغمبروں کی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔فطری طور پر قرآن کریم کا اسی بنیاد کے تحت عربی زبان میں نزول ہوا ہے۔ اس کے اسلوب میں انسانی کتابوں میں مشاہدہ ہونے والی خامیوں کی موجودگی نا ممکن ہے۔ قرآن ِ مجید میں جگہ پانے والی خدائی معلومات، انسانی وجود کے آغاز، انسان کی تخلیق اور عاقبت ، غیب کی طرف سے اطلاع دیے جانے کی طرح کے موضوعات اس سے قبل کی مقدس کتابوں میں موجود تھے۔ قرآن کریم کا معجزہ اس کے الفاظ کی ترکیب سے تعلق رکھتا ہے۔ جبکہ اس کے اسلوب کا جادو اس کی شعری اور نثری مشترکہ خصوصیت میں پوشیدہ ہے۔ مفہوم کو مختصر اور نچوڑ کے ساتھ بیان کردہ اس مقدس میں معنی کو نظر انداز نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے اجزاء کی تفصیلات کو بیان کرنے کی ضروت ہونے والی جگہ پر لفظوں کو بے جا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
اس کتاب کو مسلمانوں کے دین اور دنیاوی زندگی کے لیے ایک بنیادی رہبر ہونے کی بنا پر نازل ہونے کے دور سے روز ِ محشر تک دنیا میں آنے والے مومن لوگوں کی طرف سے سمجھنا لازمی ہے۔ مسلمانوں کے رسم و رواج میں تفسیر کے علم پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔چونکہ سمجھنے کے عمل میں تفسیر سے متعلقہ نظم و ضبط میں بیانیہ مرحلہ قرآن کو صحیح طریقے سے سمجھنے میں پہلے اور اہم ترین قدم کو تشکیل دیتا ہے۔ تمام تر الفاظ کی طرح الہی الفاظ بھی خاص وقت ، مقام اور نمایاں واقعات کے تسلسل کی ماہیت کے حامل ہیں۔ یہ چیز انسان سے مخاطب ہونے کا تقاضا ہے۔ لہذا خدائی الفاظ کو محض اس دائرے میں جگہ دینے سے بنی نو انسان صحیح طریقے سے سمجھ سکیں گے۔ اہمیت کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں ذکر آنے والے اعتقاد، اخلاق، سیاست، حقوق اور عبادت کی طرح کے موضوعات کے لیے علیحدہ علیحدہ کسی خاص نظام کو فروغ دیا گیا ہے۔ ان انضباط کو آیات کے لفظی معنی کے ساتھ ساتھ رسم و رواج کے سرمائے اور اس دور کے تقاضے بھی بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ اسلامیت کے ابتدائی دور سے دُور جانے کےساتھ ساتھ پیش آنے والے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا جو کہ تفسیر و تبصروں کے نئے طریقہ کار کے جنم لینے کا موجب بنا۔ نتیجتاً نئے نتائج سامنے آنے لگے۔
چاہے کسی طریقے یا سبب کی بنا پرہی کیوں نہ ہو بطور مسلمان قرآن پڑھنا ہر لحاظ سے عبادت کرنے کامفہوم رکھتا ہے۔ بے شک دین ِ اسلام کو سمجھنے اور روز مرہ کی زندگی کو اسی دائرے میں رہتے ہوئے بسر کرنے کے لیے قرآن کریم کے اجزاء اور عناصر کو سمجھنا لازمی ہے۔ اس میں ذکر کردہ پیغامات اولیت اور نا گزیر اہمیت کے حامل ہیں۔ تا ہم یہ اصول قرآن کی تلاوت کو عبادت کے طور پر قبول کیے جانے کے باعث ثواب حاصل کرنے کا بھی مژدہ دیتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں قرآن کو پڑھنے اور سننے کے امور کو تاریخ بھر کے دوران تمام تر مسلمان معاشروں میں بڑی اہمیت اور حساسیت حاصل رہی ہے۔ یہ ثقافتی سرمائے کو تشکیل دینے والے طرز ِ عبادت کے طور پر تصور کیے جاتے رہے۔ معنی اور مفہوم کو سمجھتے ہوئے اور اس پر غور و فکر کرتے ہوئے پڑھنے کو بھی عبادت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کے مفہوم اور اس کی دعوت کی کائناتی اقدار کی حیثیت کے باعث کرہ ارض کے تمام تر مسلمانوں پر عربی زبان سے واقفیت رکھنے اور اس کو سمجھنے کی شرط نہیں رکھی گئی ۔ لہذا اس کو سننے کو بھی عبادت کرنے کا درجہ دیا گیا ہے۔ قرآن کو ہدایت دینے والی ایک رہبر کا درجہ دیا جانا ، اس کا مطالعہ کرنے، مفہوم کو زندگیوں میں شامل کرنے اور اس کے پیغام کو اپنانے سے ہی ممکن بن سکتا ہے۔ اس بنا پر انسانوں کو قرآن پڑھنے کی ترغیب دینا اور اس کے لیے سامنے آنے والی رکاوٹوں کو ممکنہ سطح پر ہٹانا لازمی ہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں