ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 20

80452
ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 20

ترکی سے وابستگی
ترکی پر قسمت ہمیشہ سے ہی مہربان رہی ہے ماضی میں بھی ترکی جو کہ خلافت عثمانیہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی خاص اہمیت کا حامل تھا اور دور حاضر میں بھی ترکی نے جو ترقی کی ہے وہ دنیا کے لیے رول ماڈل ہے جب کسی چیز کو عروج ملتا ہے تو اس پر زوال بھی آتا ہے اسی لئے کہاوت مشہور ہے کہ عروج کو زوال بھی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ زوال کے خوف سے ترقی کی کوشش ہی نہ کی جائے۔ ترکی کو بھی مختلف ادوار میں مختلف مشکلات کا سامنا رہا ہے ترکی کو کبھی مارشل لا کا سامنا تھا تو کبھی بغاوت کا سامنا ماضی کی عظیم سلطنت، سلطنت عثمانیہ جس کے وجود سے ساری دنیا کانپتی تھی ۔جسے اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی بحری فوج ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ بلکہ علم وتدریس میں بھی کوئی اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وقت گزرتا رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ ترکی بھی عروج و زوال کے دور سے گزرتا رہا۔ مگر ترکی نے ہمت نہ ہاری اور ایک بار پھر یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر ہمت مرداں اور مدد خدا کے اصول کو اپنا لیا جائے تو کامیابی ضرور آپ کے قدم چومتی ہے۔ ترکی نے کئی ادوار دیکھے جن میں بادشاہت ،فوجیوں کی یلغار ،مصطفی کمال کی پکار اور وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کا پیار بھی شامل ہے ۔
ترکی سے پاکستان کی وابستگی کوئی آج کل کی بات نہیں، ترکی سے ہمارا رشتہ اس وقت سے قائم ہے جب پاکستان معرض ِ وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ ترکی نے آج کے دور میں جو ترقی کی ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ جدید ترکی میں آج جو اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ہمارے لیے سوچ و بچار کے بہت سے پہلو اپنے اندر سمائے ہوئے ہیں ۔
مغل سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے خلافت عثمانیہ ایک عظیم مضبوط جذباتی اہمیت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ استنبول ان کے لیے مسلم عظمت کے نشان تھے آج بھی ہم اس دور کی نایاب کتب اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ اور اس سے وابستہ ہر شے ان کے لیے خواب پرور دنیا تھی۔
سید سجاد حیدر تو ترکی سے اتنا متاثر تھے کہ انھوں نے اپنے نام میں ترکی زبان کے لفظ یلدرم کا اضافہ کر لیا تھا اور ترکی زبان سیکھ کر ترک ادب کو اردو ادب سے متعارف کروایا۔ نیاز فتح پوری نے علمی و ادبی رسالا نکالا تو اپنے رسالے کا نام نگار رکھا، مولانا ابو الکلام آزاد کے جاری کردہ رسائل الہلال اور ابلاغ میں ترک سیاسی ثقافتی علمی اور ادبی زندگی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ایک وقت کی واحد عالمی طاقت برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کا بٹوارہ کرنا شروع کیا تو ہندوستانی مسلمان خون کے آنسو رو دیے۔
ہندوستان میں جب خلافت کی تحریک شروع ہوئی تو کانگریس بھی خلافت بچانے میں پیش پیش تھی۔ مہاتما گاندھی اور مسلمان رہنما ایک ہی پلیٹ فارم سے تقریریں کیا کرتے تھے، ہندوستان کی خواتین بھی اپنے کنگن بالیاں ، زیورات تک خلافت بچاؤ تحریک فنڈ میں ڈال رہی تھیں یہ ترکی سے گہری وابستگی ہی تھی جس سے متاثر ہو کے ہندوستانی مسلمانوں نے ترکی ٹوپی کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ ترک مصنفہ خالدہ ادیب خانم ہندوستان آئیں تو وہ جدید ترکیہ کی جنگ آزادی کی ہیروئن تھیں۔ پنڈ ت رتن ناتھ سرشار کی بے مثال داستان، فسانہ آزاد کے ہیرو آزاد کو روسی فوج کے خلاف ترکوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے ترکی بھیجا گیا تھا۔اپنے وقت کے مشہور ترین ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ مولانا محمد علی اور شوکت علی کی والدہ کا یہ نعرہ تھا کہ جان خلافت پر دے د و بیٹا۔
1922 میں مصطفی کمال نے سلطان کو معزول کیا اور اس کے بعد ترکی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے نیا آئین تشکیل دیا اور اسی کے بعد ترکی ایک جدید جمہوریہ طاقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ مصطفی کمال ترکی کا مرد آہن تھے وہ روس اور یورپ سے جنگ لڑ کر برسراقتدار آئے انہوں نے یورپ کے بیمار مرد کو ایک جدید مملکت اور جمہوریت کے راستے پر ڈالا۔ مصطفی کمال کے ذہن میں صرف جدید ترکی کا نقشہ تھا۔ مصطفی کمال کے نزدیک مذہب صرف فرد کا ذاتی معاملہ تھا۔ ریاست کا کسی مذہب یا مسلک سے کوئی تعلق نہیں تھا ان کی نظر میں مسلک نظریے رنگ نسل و زبان سے تعلق رکھنے والے سب برابر تھے۔ اسی لیے ترکی کو سیکولر کہا جاتا ہے۔
جب سے ترکی کا رسم الخط بدلا تو ترکی کے زمین و آسمان ہی بدل گئے 35 برس تک ترکی ایک جمہوریہ ملک رہا لیکن 1960 کو جب فوج نے ڈیموکریٹک پارٹی کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور قومی اسمبلی معطل کر دی۔ اس کے بعد نیا آئین بنا، نئے قوانین بنے ۔زبان بندی کا موسم عروج پر رہا اس کے باوجود سیاست اور سیاستدانوں سے فوجی جرنیل پیچھا نہ چھڑاسکےاور 1980 میں ایک بار پھر فوج نے اُس وقت کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔
1983 کے انتخابات میں ترگت اوزال کی سیاسی جماعت (اے این اےپی) نےانتخابات جیت کر اپنی حکومت قائم کر لی۔
ترک جرنیلوں نےبھی وہ ہی کچھ کیا جو پاکستان میں فوجی جرنیل کرتے آئے ہیں یعنی اقتدار پر 4 مرتبہ قبضہ پاکستان میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور ترک فوج نے اپنے دور کے مقبول ترین اور منتخب وزیر اعظم عدنان مند ریس کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا ۔
1960 1971 1980 میں اقتدار کے قبضے کے بعد 1997 میں نرم انقلاب برپا کیا گیا اور اس وقت کی مخلوط حکومت کو بر خاست اور وزیر اعظم کو معزول کر دیا۔ رجب طیب ایردوان کی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ نے عوامی فلاح بہبود کے منشور پر 2002 میں انتخاب جیتا اور حکومت بنائی۔ ترکی کے سیکولر طبقات اردگان کی کامیابی سے ہراساں تھے ان کا خیال تھا کہ ترکی اب کٹر مذہبی ریاست بن کر ابھرے گا لیکن ایردوان نے ان سب کے خیالات کو غلط ثابت کر دیا۔ انہوں نے ایک روادار اور کثیر المشرب سماج کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور کامیاب کر کے دکھایا شریعت کے سخت قانون بنانے کے بجائے اردگان اور ان کے ساتھیوں نے نچلے اور اونچے متوسط طبقے کی زندگی کو بہتر بنایا اور لوگوں کو روزگار فراہم کیا افراط زر کی شرح کم کرنے اور ملک میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ رشوت ستانی اور بد عنوانی پر قابو پانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعظم ایردوان کی اے کے پارٹی دوبارہ منتخب ہو کر ایک ایسی مستحکم حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی جسے پورے ترکی میں سراہا گیا ۔
بعض ترک حلقوں کے مطابق مصطفی کمال نے طیب ایردوان کی صورت میں ایک نیا جنم لیا ہے جس نے ترکی کو ترقی کی منازل طے کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا میں کوئی کام مشکل اور نہ ممکن نہیں اگر انسان کسی بھی کا م میں کوشش اور ہمت کرے تو کامیابی ایک نہ ایک دن اس کے قدم ضرور چومتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ انسان کوشش اور ہمت کرے۔کوشش اور ہمت سے انسان کیا، ملک کیا قوم کی حالتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ جیسے ہمارے دوست ملک ترکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے اس لیے کوشش ہماری اور نتیجہ اللہ پر تو جس کا نتیجہ اللہ دے تو بھلا پھر کیسے فیل ہو سکتا ہے


ٹیگز:

متعللقہ خبریں