عالمی ایجنڈا

75855
عالمی ایجنڈا

عالمی ایجنڈا 
13 مئی 2014 کو ترکی کے شہر مانیسا کے علاقے صوما میں کوئلے کی ایک کان میں آگ لگنے سے 301 کان کن ہلاک ہو گئے ہیں ۔اس المیے سے پورے ترکی کو سخت صدمہ ہوا ہے ۔ صدر عبداللہ گل ،وزیر اعظم رجب طیب ایردوان ،قومی اسمبلی کے سپیکر جمیل چیچک جمہوری عوامی پارٹی کے لیڈر کمال کلچدار اولو، قومی تحریک پارٹی کے سربراہ دولت باہچے لی اور متعدد سیاسی اور شہری تنظیموں کے نمائندوں نے فوری طور پر علاقے میں جا کر امدادی سرگرمیوں اور صورتحال کا جائزہ لیا ۔ اس المیے کیوجہ سے ترکی اور بیرون ملک ترکی کے سفارتخانوں میں تین روز کے لیے سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ۔اس سانحے کیوجہ سے سربراہان کے بیرون ملک دوروں، 19 مئی کی تقریبات ،میچوں اوردیگر تمام پروگراموں کو ملتوی کر دیا گیا ۔
<P>ترکی میں پیش آنے والے اس المیے کو عالمی میڈیا نے بھی وسیع جگہ دی ہے ۔امریکہ، برطانیہ ،پاکستان ،ایران ،روس، جرمنی اور اسرائیل جیسے ممالک نے ترکی کے دکھ درد میں حصہ لیا اور امداد بھیجنے کی پیش کشیں کیں ۔برسلونا کی فٹبال ٹیم نےترکی کیساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ترک پرچم کے سامنے تصویر اتروائی ۔
یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے شعبہ بین الا قوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کاا س موضوع سے متعلق جائزہ پیش خدمت ہے ۔
<P>اس المیے کی وجہ کیا ہے اور یہ حادثہ کس طرح پیش آیا ہے؟ اس حادثے کے فوراً بعد یہ کہا گیا کہ آگ کان کے اندر ٹراسفارمر میں دھماکے کیوجہ سے ہوئی ہے اور کان کن آگ سے پیدا ہونے والی زہریلی گیس اور دھویں سے ہلاک ہوئے ہیں ۔اس دوران یہ دعوے بھی کیےگئے کہ یہ ہلاکتیں میتھین گیس کے دھماکے سے ہوئی ہیں ۔طرح طرح کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن اصل وجہ ماہرین کی تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی ۔وجہ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو اصل بات یہ ہے کہ کیا اس حادثے کی روک تھام کی جا سکتی تھی اور کیا کان کے حادثات انسان کا مقدر ہیں؟یہ حقیقت ہے کہ کان کنی جیسے شعبے میں حادثات کے امکانات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں ۔ہر طرح کی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود بھی کان میں حادثات ہو سکتے ہیں ۔کوئی بھی یہ ضمانت نہیں دے سکتا کہ اگر تمام تر تدابیر اختیار کی جائیں تو حادثہ نہیں ہو گا ۔اگر دنیا میں کان کنی کی مثالوں کو مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کانوں میں بہت کم حادثات پیش آتے ہیں ۔مثلاًجرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک میں دس برسوں سے کانوں میں کوئی جان لیوا حادثہ پیش نہیں آیا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کانوں میں سخت حفاظتی تدابیر اپنانے سے حادثات کو کم کیا جا سکتا ہے ۔
<P>اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترکی میں سنجیدہ مسائل کی موجودگی کو قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ترکی نہ صرف کان کنی کے سیکٹر میں بلکہ تمام شعبوں میں اپنے معیار کو ترقی یافتہ ممالک کی سطح تک پہنچانے کے لیے سر گرم عمل ہے ۔اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے لیے بھرپور کوششیں کررہا ہے ۔رکنیت کےحصول کا اصل مقصدترکی کو ہر شعبے میں ترقی یافتہ ممالک کی سطح پر لاناہے ۔شائد صوما کان میں پیش آنے والا یہ المیہ یورپی یونین کیطرف سے رکنیت کے عمل کو سرعت دینے کا موقع فراہم کرئے ۔
یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ حکام کان میں پیش آنے والے اس حادثے کے ذمہ داروں کا پتہ چلائیں اور ان کے خلاف قانون کے دائرہ کار میں کاروائی کریں ۔علاوہ ازیں ء وہ تمام کانوں میں کان کنوں کے جانی تحفظ کے لیے ایک نیا قانون نکالیں ۔وزیر اعظم رجب طیب ایردوان اور توانائی اور قدرتی وسائل کے وزیر تانیر یلدز نے کان کے مالک اور ذمہ دار افراد کی غلطیوں کا پتہ چلاتے ہوئے ان کیخلاف کاروائی کرنے کا اعلان کیا ہے ۔صوما حادثے سے سبق حاصل کرتے ہوئے کان کنی کے معیار کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔بلاشبہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف ترکی میں ہی کان کے حادثات پیش آتے ہیں ۔دنیا کے متعدد ممالک میں اس قسم کے حادثات پیش آتے رہتے ہیں لیکن ہمیں ان حادثات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے ۔اسپین ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی میں ٹرین اور طیاروں کے حادثات ،امریکہ اور روس میں اسکولوں پر دھاوے اور بچوں کی اموات، امریکہ، آسٹریلیا اور چین میں جنگلات میں آتشزدگی اور اس سے ملتے جلتے حادثات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اور حکومتیں چاہے جتنی بھی تدابیر اختیار کریں بعض حادثات کو روکا نہیں جا سکتا ۔زندگی میں ہر چیز انسان اور حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے ۔انسان، معاشرے اور حکومتوں سے ہٹ کر ایک کائناتی چکر بھی موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض فلاسفر اور دین عالم انسانیت کے ایک خاندان ہونے اور ایک جیسے مسائل سے دوچار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ انسان جتنی بھی اقوام اور ممالک میں بٹیں انسانیت ایک اتحاد ہے اور اس اتحاد کی موجودگی کا حادثات اور دکھ درد کےدوران ہی پتہ چلتا ہے کیونکہ المناک واقعات کے دوران دشمن اور رقیب ممالک بھی ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کیطرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں ۔اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عالمی تعلقات صرف مفادات سے عبارت نہیں ہیں بلکہ ان میں بھائی چارے کا پہلو بھی موجود ہے ۔کاش کہ دنیا میں جنگوں کے بجائے امن و امان کا دور دورہ ہو ۔ہماری دعا ہے کہ صوما حادثے میں ہلاک ہونے والوں کو اللہ تعالی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطا کرئے ۔





ٹیگز:

متعللقہ خبریں