ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 33

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 33

553152
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 33

لیبیا میں نظم و نسق قائم کرنے کی جدوجہد کرنے والی قومی مطابقت حکومت یو ایم ایچ سے وابستہ قوتوں نے کل داعش کے سرتے شہر میں واقع ہیڈ کوارٹر پرقبضہ کر لینے کا اعلان  کیا ہے ۔ مصراتا ملیشیاؤں کا   80  فیصد یو ایم ایچ  سے وابستہ ہے اور وہ ماہ مئی سے سرتے میں داعش کے خلاف بر سر پیکار  ہے  ۔ جھڑپوں کے آغاز میں انھوں نے داعش کے ٹھکانوں کی جانب تیزی سے پیش قدمی  شروع کی  تھی لیکن داعش کیطرف سے جنگی  حربوں  کو بدلنے سے یو ایم ایچ   قوتوں کو جانی نقصان ہوا اور ان کی  پیش قدمی میں سستی نظر آنے لگی ۔

 یو ایم ایچ حکومت کا واحد ہدف داعش کو مغلوب کرتے ہوئے سرتے کو داعش سے وا گزار کروانا تھا ۔ اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوتی تو اسے لیبیا میں قائم دیگر دو حکومتوں اور یو ایم ایچ کو ابھی تک تسلیم نہ کرنے والی ملیشیا قو توں کے سامنے اپنے وجود کو  قائم رکھنا ناممکن ہو جاتا ۔ یو ایم ایچ  نے اس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ سے امداد کی اپیل کی  یکم اگست سے امریکی خصوصی کاروائی دستے مصراتا ملیشیاؤں کی بھر پور حمایت کر  رہے ہیں اور جنگی طیارے  بھی داعش کے اہداف پر بمباری کر رہے ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی فوجی امداد کے نتیجے میں  داعش کے خلاف کامیابی سے  کیا  یو ایم ایچ  کی برتری    لیبیا میں یکجہتی قائم  کرنے  میں کامیاب ہو سکے گی ؟

 موجودہ حالات میں  مثبت  جواب دینا ممکن نہیں ہے   کیونکہ باہمی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ لیبیا میں  سر گرم عمل مداخلت فورسز کی متضاد اور متصادم پالیسیاں ہیں ۔ ان میں امریکہ سر فہرست ہے ۔قذافی کو معزول کرنے کے بعد امریکہ اور نیٹو کے دیگر اراکین کیطرف سے لیبیا میں فوجی طاقت نہ رکھنے کا فیصلہ ایک درست قدم تھا لیکن ان ممالک کی مداخلت کے بعد لیبیا کی نشاط نو کے عمل میں انھوں نے سنگین غلطی کی ۔انھوں نے لیبیا کے گروپوں کے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے عمل میں واضح شکل میں کسی ایک فریق کی حمایت کی ۔ ان کی حمایت سے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہونے کی راہیں ہموار ہوئیں ۔

امریکہ نے یو ایم ایچ حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے داعش کیخلاف جدوجہد میں حصہ لیالیکن داعش کے خاتمے کے بعد ملک طویل عرصے تک تعمیری پالیسی سے محروم رہا ۔ داعش کو سرتے سے نکالنے کے بعد امریکہ کو تبروک میں ابھی تک بر سر اقتدار مجلس نمائندگان ٹی ایم کی حکومت کیخلاف پر عزم موقف اپنانے کی ضرورت ہے ۔ٹی ایم کے فرائض کی مدت ختم ہونے کے باوجود وہ ابھی تک اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ علاوہ ازیں ،وہ 2015 میں ہونے والے معاہدے کی بھی مسلسل خلاف ورزیاں کررہی ہے ۔   اس صورتحال کے خاتمے کے لیے موقف اپنائے بغیرامریکہ کی یو ایم ایچ  حکومت کی حمایت سے لیبیا کے مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جا سکے گا ۔

امسال ماہ اپریل میں فرائض سنھبالنے والی ٹی ایم حکومت کےاراکین کی اکثریت یو ایم ایچ کا حمایتی موقف اپنائےہوئے ہے لیکن دھمکیوں اور رکاوٹوں کیوجہ سے ٹی ایم کے اراکین ایک جگہ جمع ہو کر تبروک حکومت کا خاتمہ کرنے والے سیاسی معاہدے کی توثیق نہیں کر سکے ہیں ۔ اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں میں سر فہرست سی آئی اے کے ایجنٹ کے نام سے مشہور  تبروک حکومت  کی فوجی قوتوں کے کمانڈر حلیفے  حفتر ہیں ۔

 داعش کیخلاف بر سر پیکار مصراتی ملیشیا قوتیں حفتر کی سب سے بڑی دشمن ہیں ۔  مصراتی قوتیں لیبیا کو داعش سے واگزار کروانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔حفتر طرابلس حکومت کیخلاف اپنی حاکمیت کو وسعت دینے کی کوششوں میں ہیں ۔ وہ  لیبیا  کے لیے ایک ناسور بن گئے ہیں جبکہ امریکہ اپنے ایک سابق اہلکار کیخلاف تمام مہرے استعمال کر رہے ہیں ۔   حفتر امریکہ کو مد مقابل لینے  کی طاقت نہیں رکھتے  ہیں لیکن دراصل حفتر یو ایم ایچ حکومت میں شامل نہ ہونے کے لیے سر گرم عمل تبروک حکومت مصر ،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی حمایت حاصل کیے ہوئے ہیں ۔  وہ روس کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں  مصروف ہیں ۔

 حالیہ کچھ عرصے سے فرانس اور اٹلی نے بھی حفتر کی حمایت شروع کر دی ہے ۔ اٹلی فرانس کیساتھ مشترکہ حرکت کے دائرہ کار میں  حفتر کا ساتھ دے رہا ہے  ۔ دوسری طرف فرانس علاقے میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کی غرض سے حفتر کی حمایت کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔ فرانس کی لیبیا سے متعلق پالیسی کو وضح کرنے والا اصلی ملک مصر ہے ۔ امریکہ کے خلاف اپنے لیے آزاد علاقہ کھولنے کا خواہشمند مصر فرانس اور روس کے ساتھ تعلقات کو بڑھا رہا ہے ۔

 اٹلی اور فرانس کی  حفتر کا ساتھ دینے کی پالیسی لیبیا قومی مطابقت منصوبے  کیخلاف ہے ۔  یہ پالیسی دونوں ممالک کے حلیف ملک امریکہ کیساتھ تعلقات پر بھی اثر انداز ہو گی ۔ یہ کہا جا سکتا ہے لیبیا کے مسئلے کو صرف لیبیا کے گروپوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے سے حل نہیں کیا جا سکتا ۔ دراصل انھیں مسئلے کے حل کے لیے میز پر بٹھانے پر مجبور کرنے والوں کو اپنی لیبیا  سے متعلق پالیسیوں میں ہم آہنگی  پیدا کرنے  کی ضرورت ہے ۔ بلا شبہ اس عمل میں اہم ترین کردار ادا کرنے والا ملک امریکہ ہی ہے ۔ امریکہ کاموثر کردار  کی آدائیگی سے گریز اورصرف داعش کیخلاف یو ایم ایچ قوتوں کی حمایت سے یہ  مفروضے   سامنے آ سکتے ہیں کہ کیا  لیبیاکو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے معاملے پر اتفاق کیا گیا ہے ۔

لیبیا کی تقسیم کی صورت میں طرابلس اور مغربی علاقے امر یکہ  اور برطانیہ کے زیر اثر اور بن غازی او ر مشرقی علاقے فرانس اور اٹلی کے زیر اثر آ جائیں گے ۔

 لیبیا کی تقسیم کے بارے میں  پیشن گوئیوں کا حقیقت کا روپ  نہ دھارنا  لیبیا کے باشندوں کے اختیار میں نہیں ہے ۔ اگر لیبیا کی علاقائی سالمیت  کو بر قرار رکھنا  ہے تو پھر  امریکہ اور مغربی ممالک کو لیبیا  سے متعلق اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے خواہشمندمقامی گروپوں کیساتھ کھیلے جانے والے کھیل کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں ، مصر ،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کیطرف سے بھی متحدہ لیبیا کے منصوبے کی عملی طور پر حمایت از حد ضروری ہے ۔



متعللقہ خبریں