جان لیوا مرض کینسرسے بچاؤ کے طریقے

صحت کی عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 2005 ء سے لیکر 2015ء کے آخر تک آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے ۔

220984
جان لیوا مرض کینسرسے بچاؤ  کے  طریقے

صحت کی عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 2005 ء سے لیکر 2015ء کے آخر تک آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے جبکہ سال 2032ء تک ان کی تعداد 14ملین سے بڑھ کر 22 ملین ہو جائے گی۔ اگر مناسب تدابیر برائے تشخیص اور علاج مہیا کر دی جائیں تو اس میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔یہ مرض کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس کا شافی جواب تو شاید کسی کے پاس نہیں ہے لیکن ماہرینِ صحت اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی بنیادی وجوہات جینز میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلا ٹوکسن ، تابکاری اثرات، الیکٹرو میگنیٹک ویوز، وائرل انفیکشنز،فضائی ، آبی اور غذائی آلودگی ، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں ، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ ، زہریلا دھواں اور زرعی ادویات شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی چند وجوہات ایسی ہیں جو خاص حالتوں میں کینسر کی وجہ بنتی ہیں مثلاً سیمنٹ انڈسٹری سے متعلق لوگوں کو (Asbestos)نامی کیمیکل سے کینسر ہو سکتا ہے۔خواتین میں سن یاس روکنے کے لیے ہارمون تھراپی (HRT)سے بھی کینسر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ کینسر کی ایک وجہ سورج کی تابکار شعاعیں ہیں جن سے وہ لوگ جو دھوپ میں زیادہ بیٹھتے ہوں خصوصاً سفید جلد والوں کو جلد کے کینسر کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔

کینسر کی مختلف اقسام ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس کی مختلف اقسام کے کیسز پائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر اگر ملک عزیز پاکستان کی بات کی جائے تو بریسٹ کینسر، منہ، ہونٹ اور حلق کے سرطان کا کینسر یہاں خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے،لیکن سروکس کینسرکے کیسز غیر مسلم ممالک کی نسبت مسلم ممالک میں بہت کم ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز
چھاتی کا کینسر، منہ اور ہونٹ کے کینسر،جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر ، بڑی آنت کا کینسر ، پروسٹیٹ کینسر، برین کینسر ، مثانہ کا کینسر، ہوچکنز (Hodgkins) اورنان ہوچکنز کینسر،جلد کا کینسر،اووری کا کینسر،پھیپھڑوں کا کینسر،کولون کینسر۔مرد زیادہ تر پھیپھڑوں،پراسٹیٹ،کولوریکٹم،معدے ،منہ اور جگر کی کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔
خواتین زیادہ تر چھاتی، اووری، پھیپھڑوں،سرویکس اور معدے کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں۔ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر کے کیسز پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق تقریباً سالانہ 50,000 اموات اس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان خواتین میں نسبتاً اس کا تناسب کم پایا جاتا ہے جو بچوں کو دو سال کی عمر تک اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے خواتین کا خودتشخیصی عمل بہت ضروری ہے یعنی خواتین ہر ماہ خود اپنی چھاتیوں کا ہاتھوںسے ٹٹول کر معائنہ کریں کہ کوئی گلٹی تو نمودار نہیں ہو رہی۔ اگر گلٹی محسوس ہو تو فوراً لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

بچوں میں کینسر: ہر سال 10 فروری کو ’’چائلڈ ہُڈ کینسر ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ بڑوں کی نسبت بچوں میں پچیس فی صد کینسرز خون کے کینسر (Leukemia) ہوتے ہیں اور تقریباً تیس فی برین کینسر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پائے جانے والے کینسرز میں گردوں ، آنکھوں اور ہڈیوں کے کینسرز ہوتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ تشخیص اور علاج کی فوری اور بہترین سہولت کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں کینسر سے متاثر بچوں کے زندہ رہنے کی شرح 75 فیصد ہے جب کہ پسماندہ ممالک میں کینسر کے شکار 80 فیصد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری، متوازن اور سادہ زندگی گزارنا ہے اور غیر فطری طرزِ زندگی سے بچنا ہے۔طرزِ زندگی میں سادگی ، مرغن غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بچنا، ورزش،ہر طرح کا نشہ خصوصاً پان ، چھالیہ ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے بچنااورخصوصاًجگر کے کینسر سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے وغیرہ ہیں۔ خواتین کا خود تشخیصی عمل بھی بریسٹ کینسر کے مکمل علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
کینسر کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے۔ عام طور پر کینسر کی علامات میں جسم میں کسی بھی قسم کے خلیات کا تیزی سے بڑھنا ہے جو کہ رسولی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ا س کے علاوہ کینسر کی علامات میں بغیر کسی ظاہری وجہ کے وزن کا گھٹنا اور بخار کا رہنا، قے اور فضلے میں خون کا آنا،جسم کے کسی بھی حصے میں غدود کا بڑھناوغیرہ شامل ہے۔ تشخیص کا دارومدار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے۔ اگر جسم کے بیرونی حصوں میں کینسر زدہ خلیات ہوں تو عموماً جلد تشخیص ہو جاتی ہے لیکن اگر اندرونی طور پر کینسر کی رسولی ہو تو دیر سے تشخیص ہوتی ہے۔عام طور پر خون کا ٹیسٹ (CBC)، پروسٹیٹ کینسر کے لیے (PSA)، جگر کے کینسر کے لیے الفا فیٹو پروٹین ، (CEA)،انڈو اسکوپی،ایکسرے، الٹراساؤنڈ، سی ٹی اورایم آر آئی وغیرہ کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کینسر کی تشخیص کے لیے بایوپسی (Biopsy)ایک بنیادی اور انتہائی اہم ٹیسٹ ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں میں کینسر کے علاج میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔مثلاً بچوں میں پائے جانے والے خون کے سرطان(ALL)میں 80 تا 90 فیصد بچے علاج سے مکمل صحت یاب ہو جاتے ہیں۔اسی طرح بریسٹ کینسر کی اگر جلد تشخیص ہو جائے تو اسے بھی آپریشن کے ذریعے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔جدید طریقوں سے کینسرز کے خلیات کو تشخیص کر کے ان کے لیے مؤثر ادویات کے علاوہ ریڈی ایشن (Radiation) کے ذریعے علاج میں بھی نسبتاً کافی جدت اور پیش رفت ہوئی ہے۔کینسر کے علاج میں ایک جدید طریقہ علاج ’Personalized cancer vaccine‘ کہلاتا ہے۔اس طریقہ علاج میں کینسرزدہ حصے سے مواد لے کر ایک مخصوص طریقے سے مریض کے جسم میں ڈالا جاتا ہے جس سے مریض کی قوتِ مدافعت کینسر کے خلاف قوت پکڑ لیتی ہے۔ اس طریقہ علاج میں ماہرین کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن ابھی اس میں بہت تحقیق کی ضرورت ہے اور فی الحال ماہرین اس طریقہ علاج کو پروسٹیٹ کینسر کے خلاف ہی استعمال کر رہے ہیں۔
کینسر کی وہ علامات جو آپ عموماً نظر اندازکر دیتے ہیں: کینسر کے خوفناک مرض کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اکثر ان علامات پر توجہ نہیں دیتے جو بالآخر اس جان لیوا مرض میں بدل جاتی ہیں۔اگر آپ ابتدا میں ہی ان علامات کو سنجیدگی سے لیں اور ڈاکٹر سے رابطہ کریں تو یقینا آپ کینسر سے محفوظ رہ سکتے ہیں
٭ اگر آپ کو پیشاپ کے دوران تکلیف کاسامنا کرنا پڑے ، اس میں خون آئے یا بلاوجہ مردانہ کمزوری لاحق ہو جائے تو یہ پراسٹیٹ کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔ ٭اگر خصیوں کے سائز میں تبدیلی نظر آئے ، ان میں سوجن یا گلٹیاں محسوس ہو ں تو یہ خصیے کے کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔٭جلد کا کینسر مردوں میں بہت عام پایا جاتا ہے۔ اگر آپ دیکھیں کہ کسی مہاسے کا سائز بہت بڑھ رہاہے یا جلد پر ایسے دھبے ہیں جن کا رنگ غیر معمولی حد تک گہرا ہے تو ڈاکٹر سے ضرور رابطہ کریں۔٭منہ میں زخم ،جبڑوں میں سوجن یا جبڑے بے حس ہونے کی صورت میں منہ کے کینسر کے لیے معائنہ کروائیں۔
٭کھانسی اگر بہت طول پکڑ جائے تو پھیپھڑوں کے کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔٭پاخانے میںخون آنا کولن کینسر کی علامت ثابت ہو سکتی ہے۔٭پیٹ میں شدید درد اور ہروقت دل گھبرانے اور متلی کی کیفیت محسوس ہونا پنکریاز ،کولور یکٹل یا جگر کے کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔٭اگر اکثر بخار رہے یا انفیکشن ہو تا رہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جسم میں خون کے سفید خلیے متاثر ہو رہے ہیںاور یہ خون کے کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔ ٭کھانا نگلنے میں دقت گلے یا معدے کے کینسر کی طرف اشارہ ثابت ہو سکتاہے۔
٭جسم پر کثرت سے خراشوں کا ظاہر ہونا ، خصوصا ہاتھوںاور انگلیوں پر ،خون کے کینسر کا اشارہ ہو سکتاہے۔٭وزن میںغیر معمولی کمی واقع ہونا کئی طرح کے کینسر کا اشارہ ہوسکتا ہے۔ ٭ہمیشہ تھکاوٹ محسوس ہونا اور سانس پھولنا اگرچہ عام طور پر کینسر کی علامت شمار نہیں کیا جاتا لیکن اسے سنجیدگی سے لیں اور ڈاکٹر کو دکھائیں۔ ٭اگر آپ کو عام طور پر شدید سردرد یا مِگرین کامسئلہ نہیں ہے لیکن پھر اچانک شدید سردرد رہنے لگے تو دماغ میں رسولی کا خدشہ ہو سکتاہے۔٭اگرچہ یہ علامات کئی طرح کے مسائل کی طرف اشارہ ہو سکتی ہیں لیکن یاد رکھیں کہ یہ عام پائے جانے والے کینسر وں کی بھی ابتدائی علامات ہیں ،لہذا انہیں دیکھتے ہی ڈاکٹر سے رابطہ ضرور کریں۔
کینسر سے بچانے والی غذائیں:کینسر کا علاج دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے آج بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔اگرچہ ماہرین ابھی تک اس مرض کا کوئی تسلی بخش علاج تلاش کرنے میں کام یاب نہیں ہو پائے ہیں، لیکن کچھ ایسی احتیاطی تدابیر ضرور ہیں جن پر عمل کیا جائے تو کافی حد تک اس مرض سے خلاصی مل سکتی ہے۔ ہم آپ کو کچھ ایسی غذاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں، جن کے اندر قدرت نے اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔
بند گوبی ایک صحت بخش غذا ہے جو نہ صرف آپ کو مضبوط بناتی ہے بلکہ اسے دوا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اندر موجود اجزاء خواتین کے ایک خاص ہارمون، ایسٹروجن کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ ہارمون خواتین کے اندر چھاتی کے سرطان کا سبب بنتا ہے اور ایسٹروجن کے نقصان دہ اثرات کو مفید اجزاء میں بدل دیتا ہے۔
گوبھی کی طرح گوبھی کا شمار بھی صحت کے لیے مفید سبزیوں میں ہوتا ہے۔ یہ سبزی بھی کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گوبھی کو مثانے، چھاتی، آنتوں، غدود اور اووری کے سرطان کا مقابلہ کرنے والی غذا قرار دیا جاتا ہے۔
۔مشروم کو وٹامن بی اور آئرن کا بہترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ذیابیطس، الرجی اور کولیسٹرول کا مقابلے کرتا ہے، رسولی سے تحفظ دیتا ہے، علاوہ ازیں یہ کینسر سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ دوران علاج سائڈ افیکٹس سے مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
سلفورافین‘ نامی مرکب گوبھی یا اس سے ملتی جلتی سبزیوں میں پایا جاتا ہے جو کینسر سے نمٹنے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ یہ مرکب رسولی کو بڑھنے سے روکتا ہے۔
گاجر کے اندر دو اجزاء بیٹا کیروٹین اور فالکارینول پائے جاتے ہیں، جو کہ کینسر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن بعض تحقیقات کے مطابق ’بیٹا کیروٹین‘ کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے لیکن یہ ابھی تک حتمی نہیں ہے۔ گاجروں کا استعمال مختلف اقسام کے سرطان کا مقابلہ کرتا ہے جن میں منہ، گلے، پیٹ، آنتوں، مثانے، غدود اور چھاتی کا سرطان شامل ہے۔
میٹھے آلوؤں کے اندر موجود بعض اجزاء پھیپھڑوں، مثانے، گردے، جگر اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
 چکوترا:چکوترا عمومی طور پر ذیابیطس سے بچاؤ اور جسم کو توانا رکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کینسر کا مقابلہ کرنے والی غذا بھی ہے۔ بڑی آنت کے کینسر کو چکوترے کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ چکوترے کے اندر موجود ’’فلیونائیڈز‘‘ کینسر کے خلیوں کی افزائش کو آہستہ کر دیتی ہے۔ واضح رہے کہ دورانِ علاج دواؤں کے ساتھ چکوترے کا استعمال مضر بھی ہو سکتا ہے۔
انگوروں کی کینسر کا مقابلہ کرنے والی غذا کے طور پر تحقیق ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ انگور کے بیج میں موجود ایک کیمیکل آنتوں کے سرطان، غدود یا پروسٹیٹ کینسر اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ٹماٹر وٹامن اے، سی اور ای کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس کے اندر کینسر کا مقابلہ کرنے والا ایک ’’جزو‘‘ بھی پایا جاتا ہے، جسے lycopene کہتے ہیں۔ یہ فری ریڈیکل اور کینسر کے خلیوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ٹماٹر کے اندر موجود وٹامن سی اْن خلیوں کو تباہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے جو آگے چل کر کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر اجزاء چھاتی کے سرطان، غدود یا پروسٹیٹ کینسر، منہ، لبلبہ اور مثانے کے کینسر سے تحفظ فراہم کر تے ہیں۔
چیری اور اسٹابریز کے اندر موجود اجزاء بھی کینسر سیلز بالخصوص پیٹ کے سرطان، بڑی آنت کے سرطان اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کے اندر موجود مادے جلد، مثانے، پھیپھڑوں اور غذائی نالی کے سرطان کے خلاف ایک مہلک ہتھیار ہے۔
پپیتے کے اندر موجود دو مرکبات ’’بیٹا کیروٹین‘‘ اور لائیکو پین ’’فری ریڈیکلز‘‘ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک اور مرکب بھی خلیوں کو کینسر سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایک طرح سے پپیتا کینسر سے بچاؤ کا بہترین پھل ہے۔
  نارنجی اور لیموں:نارنجی کے اندر limonene نامی اجزاء کینسر کا مقابلہ کرنے والے خلیے پیدا کرتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں فری ریڈیکلز کا مقابلہ کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔
السی کے بیج کینسر کے خلیوں کو پیدا ہونے اور بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اسے غدود یا پروسٹیٹ کینسر اور چھاتی کے سرطان کا علاج سمجھا جاتا ہے۔
لہسن پیٹ کے کینسر، بڑی آنت، غذائی نالی، لبلبے اور چھاتی کے سرطان کے خطرات کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔مکن ہے کہ سبز چائے کو اب تک لوگ وزن گھٹانے ہی کے لیے استعمال کرتے رہے ہوں لیکن اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سبز چائے کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔سویابین کے اندر موجود کچھ اجزاء کو غدود اور چھاتی کے سرطان کو روکنے میں معاون سمجھا جاتا ہے۔ کینسر کے علاوہ سویابین کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں