حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پرعمل رآمد ہی سےملک کورول ماڈل بنایاجاسکتا ہے:عمران خان

عمران خان نے ان خیالات کا اظہار اتوار کو یہاں ” ریاست مدینہ اور اسلام کا تصور، تعلیمات نبوی کی روشنی میں“ کے موضوع پر انٹرنیشنل رحمت اللعالمین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا

1303720
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پرعمل رآمد ہی سےملک کورول ماڈل بنایاجاسکتا ہے:عمران خان

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں مدینہ کی ریاست کے ماڈل پر اس لئے زور دیتا ہوں تاکہ ہماری نوجوان نسل کو اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل ہو اور وہ سیکھ سکیں، حضور نے نوجوانوں کو سیکھنے کا حکم دیا تھا، ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلام کی تاریخ کے بارے میں نہیں بتایا جاتا اس لئے نوجوان نسل کو اپنے عظیم رول ماڈلز سے روشنائی نہیں ہے، اگر ہم نے عظیم بننا ہے تو نبی کی زندگی کو رول ماڈل بنانا ہوگا، اگر ہم نے اپنے بچوں کو تاریخ سے واقف نہ کیا تو مسائل پیدا ہوں گے، ہمیں اسلامی طور کی ترقی اور تنزلی کے بارے میں جاننا ہوگا، حضور نبی کریم نے مدینہ کی ریاست کی بنیاد میرٹ اور کردار پر رکھی یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی عظیم بن گیا، ہمارے نبی کریم ایک عظیم رہنما ہیں ان کا نام ہمیشہ سر بلند رہے گا، ریاست مدینہ کا مقصد پیسہ یا طاقت نہیں تھا بلکہ انسانیت ہی سب کچھ تھا۔

 وزیراعظم عمران خان نے اتوار کو یہاں ” ریاست مدینہ اور اسلام کا تصور، تعلیمات نبوی کی روشنی میں“ کے موضوع پر انٹرنیشنل رحمت اللعالمین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری زیادہ تر زندگی بیرون ملک گزری ہے اور میں پاکستان کے تمام علاقوں اور عوام جو جانتا ہوں جب میں زندگی کا سفر شروع کیا تو مجھے سمجھ نہ تھی میں صرف والد صاحب کے کہنے پر جمعہ اور عید کی نماز پڑھتا تھا اس کے علاوہ میرا کوئی ایمان نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے میں بھی مسلمان تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے تجربے سے سیکھا اور اس سچ پر پہنچا ہوں کہ انسان کی زندگی میں اس کا کوئی نہ کوئی رول ماڈل ہونا چاہئے اور زندگی کے ساتھ ساتھ یہ رول ماڈل بدلتے رہتے ہیں لیکن مسلمانوں کا رول ماڈل حضور نبی کریم کی ذات اور ریاست مدینہ ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اچھے اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کی لیکن وہاں پر ہمیں یہ نہیں بتایاگیا کہ ہمارے رول ماڈل نبی ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو تو سمجھ نہیں ہوتی لیکن ہمارے تعلیمی داروں میں بھی ہمیں اپنے عظیم کرداروں سے متعارف نہیں کرایا جاتا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انتخابات سے قبل اس طرح کی بات نہیں کرتا تھا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں ووٹ لینے کےلئے یہ باتیں کررہا ہوں لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد میں نے ریاست مدینہ کی بات کی ۔ کیونکہ اگر انسان نے عظیم بنانا ہے تو اس کو نبیﷺکو رول ماڈل بنانا ہوگا۔

 انہوں نے کہا کہ اگر کسی قوم نے عظیم بننا ہو تو اس کو ریاست مدینہ کو رول ماڈل بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حضورﷺکے اردگرد جتنے بھی افراد تھے وہ سب عظیم بن گئے جو شروع میں عظیم نہ تھے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم کی حیات طیبہ کو اپنا رول ماڈل بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں انشاءاللہ تعالیٰ تعلیم کے نظام کو ٹھیک کریں گے تاکہ ہمارے بچوں کو یہ بتا ہو کہ ہمارے نبی نے معاشرے کو کس طرح تبدیل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب دنیا میں روم اور ایران کی دو بڑی سلطنتیں موجود تھیں اور ان میں عربوں کی کوئی حیثیت نہ تھی تو دیکھتے ہی دیکھتے ریاست مدینہ دنیا کا مرکز بن گئی جو ایک معجزہ ہے۔

 انہوں نے کہا کہ حضورﷺکے دنیا سے پردہ کرنے کے صرف چھ سال کے بعد دنیا کی دونوں سپر پاورز عربوں کے سامنے جھک گئیں ، ہمیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور نبی کریم کی زندگی بھی تاریخ کا حصہ ہے جس کے بارے میں ہمیں بچوں کو بتانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی اور پیغمبر کی زندگی اس طرح تاریخ کا حصہ نہیں جس طرح ہمارے نبی کی زندگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے ریسرچ کی ضرورت ہے۔ مدینہ کی ریاست کے ماڈل پر عمل کر کے ایک ہزار سال تک مسلمان دنیا کی عظیم قوم رہے جبکہ 7 سو سال تک بڑے بڑے سائنسدان صرف مسلمان تھے لیکن جب ہم نے ریاست مدینہ کے رول ماڈل سے ہٹ گئے تو مسلمان دنیا میں پیچھے چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں موبائل فون کا بڑھتا ہوا استعمال ہمارے لئے چیلنج ہے کیونکہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو اپنی تاریخ سے واقف نہ کیا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ انہیں بتانا ہوگا کہ ہم نے کیسے ترقی کی اور ہمارا زوال کیوں ہوا۔ ہمارے لئے مغربی تہذیب اور دین اسلام کا مطالعہ ضروری ہے۔ علامہ محمد اقبال نے بھی کہا تھا کہ جب مسلمان مدینہ کی ریاست کے اصولوں سے دور ہوئے تو زوال پذیر ہوگئے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میرا مشن ہے کہ ہم تعلیم کے نظام کو ایسا بنائیں تاکہ ہمارے بچے یہ بات سمجھ سکیں کہ وہ کیا کردار تھا جس نے مسلمانوں کو ترقی دی ، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے لوگ صرف مسلمان تاجروں کے کردار کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے ۔ انہوں نے کہا کہ سچ میں انسان کی عزت ہوتی ہے جو طاقت دیتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نبیﷺ کے پاس ایک قریشی آیا جس نے کہا کہ میں اپنی عادتیں نہیں بدل سکتا آپ مجھے نصحیت فرمائیں تو آپ نے اس کو ہدایت کی کہ سچ بولا کرو۔ انہوں نے کہا کہ زندگی ، رزق اور عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو ہمیں کس بات کا خوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد قلیل وقت میںمسلمان معاشرہ نے بڑے عظیم لوگ پیدا کئے ،۔ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد صرف 30 سال میں دنیا بھر میں مسلمان پھیل چکے تھے جو اپنے کردار کی وجہ سے دنیا کے حکمران بنے۔ انہوں نے کہا کہ حضور کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے، ریاست مدینہ کی بات کرنا میری زندگی کاتجربہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں بھی خدا تعالیٰ نے حضور کی زندگی کو مشعل راہ بنانے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی بھی انسان کسی مشن پر ہوتا ہے تو اس کی ذات کی نفی ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی فلاح چاہتا ہے ، ایسا انسان اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کےلئے زندگی گزارتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا دوسروں کی خدمت کرنے والوں کو یاد رکھتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حضور نے پورے عرب کو فتح کرنے کے بعد نہ تو اپنا گھر بدلا اور نہ ہی جائیدادیں بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک ہمارے نبی عظیم شخصیت ہیں اور ان کا نام ہمیشہ سر بلند رہے گا۔ ان کا مقصد دولت یا طاقت نہ تھا بلکہ انہوں نے انسانیت کےلئے ہی سب کچھ کیا۔ برصغیر کے صوفیا کے مزاروں پر لاکھوں افراد موجود ہوتے ہیں کیونکہ یہ صوفیاءبھی حضور کے راستے پر چلتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ نیلسن منڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے لیکن اس کے باوجود سب کو معاف کردیا اور ملک کو خون خراب سے بچا لیا، جب تک جنوبی افریقہ رہے گا لوگ اس کی عزت کرتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حضور نے بھی فتح مکہ کے موقع پر سب کو معاف فرما دیا تھا۔ حضور انصاف پسند اور رحم فرماتے تھے لیکن جرم کو معاف نہیں کرتے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معاشرہ صرف اس وقت ترقی کرتا ہے جب جزا اور سزا کا نظام ہو۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ریاست کی ذمہ داری اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو انصاف فراہم کرے اور ان کو آزادی ہو تاکہ وہ اپنی قابلیتوں کا مظاہرہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ نا انصافی کی وجہ سے معاشرے سے میرٹ ختم ہو جاتا ہے اور معاشرہ دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ریاست مدینہ کے لوگ بھی میرٹ پر آگے آئے تھے اور ریاست کا بنیادی حصول میرٹ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میرٹ ، انصاف اور تعلیم کی بنیاد پر دنیا کےلئے نمونہ بنی۔ ہم بھی مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر عمل درآمد کرکے ملک کو ترقی دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کا قیام جدوجہد کا نام ہے اور ہم اس راستے پر گامزن ہیں اور خدا ہمیں کامیابی دے گا اور ہمارا کام اس راستے پر چلتے ہوئے جدوجہد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے کرپٹ نظام میں ہر جگہ معافیاز موجود ہیں اور ہمیں جدوجہد کے ذریعے ان کو شکست دینا ہوگی تاکہ ملک کو ترقی دیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں مجھ میں رحم نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو لوٹنے والوں کو میں کیسے معاف کر سکتا ہوں کیونکہ انہوں نے عوام کا پیسہ چوری کیا ہے ان کو صرف عوام ہی معاف کرسکتے ہیں۔ یہ نہ کرنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ مجھ میں رحم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ رحم تو کمزور ، غریب ، پسے ہوئے طبقات، معذوروں، یتیموں اور بیواﺅں کےلئے ہوتا ہے، ڈاکوﺅں پر کون رحم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کی ترقی اصولوں اور کردار کی بنیاد پر ہوئی تھی ہمیں بھی خود کو بدلنا ہوگا، ہم نے سچی قوم بننا ہے، سچ بولنے کےلئے طاقت چاہئے اور سچ ہی یہ طاقت فراہم کرتا ہے جس سے خدا کی مدد ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمزور طبقات ہم سب کی ذمہ داری ہیں اور اس حوالے سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ہم سب سے زیادہ خیرات لیکن ٹیکس کم دیتے ہیں ۔ اگر ریاست کے پاس پیسہ نہیں ہوگا تو عوام کی فلاح وبہبود کیسے ہوگی، ہمیں ٹیکس دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہئے ۔ وزیراعظم نے قوم سے کہا کہ وہ خود کو بدلے تاکہ ہم عظیم قوم بن سکیں۔

 انہوں نے کہا کہ جس طرح ریاست اور شہریوں کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اسی طرح علماءکی بھی ذمہ داریاں ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے ماڈل پر اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کےلئے ہماری رہنمائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں عالم کا بڑا عظیم درجہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ہمارے علمائے کرام اس حوالے سے ہماری مدد کریں تاکہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو اپنی تاریخ سے آگاہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ترکی اور ملائیشیا نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی تاریخ کو اجاگر کرنے کےلئے مل کر کام کریں گے اور ہم اسلامی ہیروز سے اپنی نوجوان نسل کو متعارف کروانے کےلئے فلمیں بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے عروج میں بھی مدینہ کی ریاست کی پیروی شامل ہے اور آج بھی مغربی ممالک میں ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ترقی کر گئے ہیں۔ ہمیں بھی اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا ہوگا اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہوگا۔



متعللقہ خبریں