سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت شروع ہوگئی

سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت شروع ہوگئی ہے

774108
سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت شروع ہوگئی

سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت شروع ہوگئی

سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت شروع ہوگئی ہے ۔ وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل دے رہے ہیں۔

سماعت کے آغازمیں عدالت کی جانب سے برہمی کا اظہارکیا گیا اورریمارکس میں کہا گیا کہ دستاویزات بعد میں عدالت میں جمع کرائی گئیں اورمیڈیا پرپہلے آئیں جس پرسلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں نے اپنے طورپرجلد دستاویزات جمع کرانے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے دستاویزات وقت پرجمع کرانے کا کہا تھا، تمام دستاویزات میڈیا پرزیر بحث رہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک دستاویز قطری شہزادے اور ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے، تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے تصدیق کروانا تھی، مریم کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی جس پر سلیمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے، یو اے ای کے خط پر حسین نوازسے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا جب کہ حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے انکار کیا تھا جس پر وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی حکام کے جواب پر حسین نواز سے جرح نہیں کی۔ سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کرسنایا اور کہا کہ یو اے ای حکام نے گلف سٹیل ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنزکی بھی تردید کی گئی، خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم ریکارڈ بھی موجود نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید  نے ریمارکس میں کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا، سب نے کہا یہ نوٹری مہر کو نہیں جانتے، اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے، اب آپ نئی دستاویزات لے آئے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ ان کے کیس پراثرات ہوں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 12 مئی 1988 اور30 مئی 2016 کے دونوں نوٹری پبلک کودبئی حکام نے جعلی قرار دیا، دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سکریپ نہیں مشینری تھی، جے آئی ٹی نے غلط سوال کیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر دبئی میں اندراج نہیں ہوتا تو دبئی کے محکمہ کسٹم کی کیا ضرورت ہے جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایک ریاست سے دوسری ریاست سامان لے جانے کا اندراج نہیں ہوتا

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں اور ان کی دستاویزات کا جواب دیں، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے جس پرعدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ پر کوئی بقایا جات تھے جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جو بقایا جات تھے وہ ادا کر دیئے گئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق 21 ملین ریال عزیزیہ کی فروخت کے وقت بقایا جات تھ۔ عزیزیہ سٹیل مل 63 ملین ریال کی بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ کے اکاؤنٹ میں آئی جس کا بینک ریکارڈ موجود ہے

 جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تین حصہ دار تھے صرف حسین نواز نے عزیزیہ فروخت کی، کیا حسین نوازپہلے دونوں حصہ داروں کے شیئرز خرید چکے تھے، حسین نواز نے پاور آف اٹارنی آج تک جمع نہیں کرائی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یہ ایک خاندانی معاملہ تھا جس کا تحریری جواب موجود نہیں ۔

الزام یہ ہے کہ 1993 ء میں حسن ،حسین لندن فلیٹ نہیں خرید سکتے تھے ۔1993 سے آج تک لندن فلیٹس میں وزیر اعظم کے بچے رہائش پذیر ہیں اور یہ  فلیٹ وزیر اعظم نے خریدے ہیں ۔

 



متعللقہ خبریں