انسانی توقف کے بعد اسرائیل نے جارحانہ حملے شروع کر دیے، اموات میں اضافہ

اسرائیلی جنگی طیاروں اور جنگی  بحری جہازوں نے غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس اور وسطی حصے میں واقع شہر دیر البلاح پر  تابڑ توڑ  حملے کیے

2071720
انسانی توقف کے بعد اسرائیل  نے جارحانہ حملے شروع کر دیے، اموات  میں  اضافہ

7 اکتوبر سے ناکہ بندی کے شکار غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 15 ہزار 207 ہو گئی۔

غزہ میں وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے اپنے پریس بیان میں غزہ کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

قدرا نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 15 ہزار 207 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ  40 ہزار 652 زخمی  ہوئے  ہیں۔

وزارت کے ترجمان نے یہ بھی بتایا ک اسرائیلی قوتوں کی طرف سے حراست میں لیے گئے  شفا اسپتال کے ڈائریکٹر اور غزہ میں 31 طبی عملے کو شدید  جسمانی ریمانڈ میں  پوچھ گچھ کی گئی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

 

اسرائیلی فوج نے کل صبح "انسانی بنیادوں پر وقفہ" ختم ہونے کے فوراً بعد غزہ کی پٹی پر اپنے حملے دوبارہ شروع کر دیے اور یکم دسمبر کے دن  حملوں میں 178 افراد، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل تھیں، ہلاک اور 589 افراد زخمی ہوئے۔

بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں اور جنگی  بحری جہازوں نے غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس اور وسطی حصے میں واقع شہر دیر البلاح پر  تابڑ توڑ  حملے کیے۔

فلسطینی سرکاری ایجنسی وفا کی خبر کے مطابق مقامی ذرائع کی بنیاد پر اسرائیلی جنگی طیاروں نے خان یونس شہر پر شدید فضائی حملہ کیا۔ حملے میں بچوں اور خواتین سمیت درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد نہیں بتائی گئی۔

اسرائیلی جنگی جہازوں نے غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے دیر البیلہ شہر کے ساحلی علاقوں پر بھی بھاری مشین گنوں سے فائرنگ کی اور شہر کے آسمانوں پر درجنوں  روشنی پیدا کرنے والے بم  پھینکے۔

بتایا گیا تھا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے  اسرائیل پرحملوں میں 310 سے زائد فوجیوں سمیت 1,200 اسرائیلی ہلاک اور 5,132 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں جھڑپوں میں 70 اور لبنانی سرحد پر 6 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔

غزہ کی حکومت کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے  جن میں 6 ہزار 150 سے زائد بچے اور 4 ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔

 

 

 

 



متعللقہ خبریں