ہمیں شعیہ مسلک کو نہیں اسلام کو فروغ دینا چاہیے: علی مطہری

ہمیں، عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ مضبوط بنانا چاہیے کیونکہ جب تک مسلمان ممالک  باہم متحد نہیں ہوتے مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکے گا: علی مطہری

1139979
ہمیں شعیہ مسلک کو نہیں اسلام کو فروغ دینا چاہیے: علی مطہری

ایران کی قومی اسمبلی کے نائب اسپیکر علی مطہری نے کہا ہے کہ تہران انتظامیہ کے علاقے میں شعیہ مسلک کو فوقیت دینے کی وجہ سے خارجہ پالیسی میں مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

ایرانی اسٹوڈنٹس خبر رساں ایجنسی  کے لئے انٹرویو میں مطہری نے انقلابِ ایران  کے 40 سالوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی میں مسائل موجود ہیں۔

ہمیں علاقے  میں اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ کرنے اور اسلام کو پھیلانے کے لئے شعیہ مسلک کو اوپر لانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہمیں فروغِ اسلام کے لئے کام کرنا چاہیے۔ امتیازیت اور شعیہ مسلک کو اوپر چڑھانے کی کوشش ہمارے مقابل کو ہم سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا اہل سنت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لہٰذا اپنے درمیان لکیر کھینچنا درست طرزِ عمل نہیں ہے۔

مطہری نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ایران سے کترانا  ان ممالک کو اسرائیل سے قریب کرنے کا سبب بنا ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی اصلاح کرنا چاہیے، اسے زیادہ فعال  شکل دے کر عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ مضبوط بنانا چاہیے کیونکہ جب تک مسلمان ممالک  باہم متحد نہیں ہوتے مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ بعض حکومتی اراکین کے ،اپنے طرزِ حیات کے حوالے سے، عوام سے دور ہٹنے نے انقلاب کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ اظہار بیان  کی  آزادی کو محدود  کیا جانا ہے۔

مطہری نے کہا کہ ہماری حکومت عوامی ووٹ سے اقتدار میں آئی اور ہم نے عوام کی آزادیوں میں اضافہ کرنا چاہا لیکن دینی رہنما علی خامنائی سے منسلک طاقتوں نے اس کی اجازت نہیں دی ۔

انہوں نے کہا کہ مسلح افواج کی سیاست اور اقتصادیات میں دخل اندازی کے پہلو کی بھی اصلاح ہونی چاہیے۔ یہ پہلو ملکی مسائل میں سے ایک ہے۔ ایک فوجی کو خارجہ پالیسی کے بارے میں رائے نہیں دینی چاہیے۔



متعللقہ خبریں