صدر ایردوان کے شمالی قبرص اور آذربائیجان سے واپسی پر اہم بیانات

نئے دور میں خارجہ پالیسی میں ترکی کی ترجیح بات چیت اور سفارت کاری ہے، ایردوان نے یونان کے ساتھ تعلقات کا بھی جائزہ پیش کیا

1999677
صدر  ایردوان کے شمالی قبرص اور آذربائیجان سے واپسی پر اہم بیانات

صدر رجب طیب ایردوان نے اس بات پر زور دیا کہ سویڈن، جو کہ نیٹو کا رکن بننا چاہتا ہے، اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

صدر ایردوان نے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ  اور آذربائیجان کے دوروں سے واپسی پر طیارے پرصحافیوں کے سوالات کا جواب دیا۔

جناب ایردوان، "کیا ترکیہ نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی منظوری دے گا؟" سوال کے جواب میں کہا کہ"حال ہی میں، نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینز اسٹولٹن برگ استنبول میں میرے مہمان تھے۔ ہم نے ان سے کیا کہا: 'اگر آپ توقع کرتے ہیں کہ ہم سویڈن کی توقعات پر پورا اتریں گے، تو سب سے پہلے، سویڈن کو اس دہشت گرد تنظیم (پی کے کے) نے جو کچھ کیا ہے انہیں ختم کرنا چاہیے۔' اس وقت، بدقسمتی سے، دہشت گرد سویڈن میں ایک بار پھر سڑکوں پر مظاہرے کر رہے تھے، ہم اس تناظر  میں اس مسئلے کو مثبت انداز میں نہیں دیکھ سکتے، جب  تک  اس سے نمٹا نہیں  جاتا، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ولنیئس کے نیٹو سربراہی اجلاس میں ہمارا موقف مثبت ہو گا۔

یہ بتاتے ہوئے کہ نئے دور میں خارجہ پالیسی میں ترکی کی ترجیح بات چیت اور سفارت کاری ہے، ایردوان نے یونان کے ساتھ تعلقات کا بھی جائزہ لیا۔

"ترکی میں انتخابات کے بعد، یونان کے سابق وزیر اعظم کریاکوس میتسوتاکیس نے مجھے فون کیا اور مبارکباد دی۔ اس لیے ہم ابھی ولنیئس میں ان سے ملنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ہم دو پڑوسی ملک ہیں۔ ہمیں جو کہنا ہے وہ یہ ہے کہ" آپ اس اسلحہ کا کیا کریں گے؟ بہر صورت ہم ان کے بارے میں مل کر بات کریں گے۔ جان لیں کہ ہم دشمنی کو طول دینے کے بجائے اسے ختم کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ یہی  ترکیہ ہے، یہی ایردوان ہے۔"

صدر نے قبرص کے مسئلے پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ"قبرصی یونانی انتظامیہ  پچھلی انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ پرامن ماحول میں ہے۔ اگر وہ اس پرامن ماحول کو برقرار رکھتی ہے اور شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے خودمختار مساوی حقوق کے تحفظ کے لیے 'ہاں' کہتی ہے تو ہم بھی اسی کے مطابق مثبت پالیسی پر عمل درآمد کریں گے۔ہم کہتے ہیں کہ یورپی یونین ایماندار نہیں ہے،  50 سال گزر چکے ہیں، یہ یورپی یونین ابھی اسی جگہ پر اٹکی ہوئی ہے۔ ہم ان مسائل پر بھی بات کریں گے۔ اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔"

قفقاز میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے ایردوان نے کہا کہ باکو-ایریوان لائن پر امن عمل کی پیشرفت آرمینیا کے ساتھ ترکیہ کے تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

زنگیزور کوریڈور کے حوالے سے ایران کے ساتھ مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہا، "یہ آرمینیا اور ہمارا  مسئلہ نہیں ہے۔ زنگیزور کوریڈور ایران کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ یہاں ایران کا (منفی) رویہ آذربائیجان اور آذربائیجان دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں فی ویگن کی فیس بہت زیادہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم اس مسئلے پر بہت کم وقت میں قابو پا لیں گے۔ ریل کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہو جائیں گے اور شاید بیجنگ-لندن لائن بھی کھل جائے گی۔



متعللقہ خبریں