اگر عمل کی کمی نہ ہو تو عالم اسلام نہ تو کمزور ہے اور نہ ہی لاچار: ایردوان

عالم اسلام کو ایک جگہ جمع کرنے والے پلیٹ فورموں کا سب سے بڑا مسئلہ بے عملی ہے، اگر یہ کمی نہ ہو تو عالم اسلام نہ تو کمزور  ہے اور نہ ہی لاچار: صدر رجب طیب ایردوان

1325972
اگر عمل کی کمی نہ ہو تو عالم اسلام نہ تو کمزور ہے اور نہ ہی لاچار: ایردوان
erdogan.jpg
erdogan.jpg
erdogan.jpg
erdogan.jpg

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے سلامتی کونسل  کی ساخت میں تبدیلی کے موقف کو ایک دفعہ پھر دوہرایا ہے۔

صدر رجب طیب ایردوان نے ملائیشیا  کی میزبانی میں منعقدہ کوالالمپور سربراہی اجلاس سے خطاب کیا۔

ایران کے صدر حسن روحانی اور قطر کے امیر تمیم بن حماد التانی  سمیت 50 سے زائد ممالک سے 650 نمائندوں کی شرکت سے منعقدہ اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین کی طرف سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم کردہ  اور 1.7 بلین انسانوں کی تقدیر کو 5 ممالک کے ہاتھ میں دینے والے اس نظام کا وقت ختم ہو چکا ہے۔

صرف  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی نہیں اسلامی تعاون تنظیم پر بھی نظر ثانی اور تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ "عالم اسلام کو ایک جگہ جمع کرنے والے پلیٹ فورموں کا سب سے بڑا مسئلہ عمل کی کمی ہے۔ اگر ہم مسئلہ فلسطین  میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پا رہے  یا پھر  مذہبی فرقہ واریت کو استعمال کر کے ہمارےجغرافیے  کو تار تار کرنے  والوں کو روک نہیں پا رہے تو اس کی وجہ یہی بے عملی ہے۔ اگر یہ کمی نہ ہو تو عالم اسلام نہ تو کمزور  ہے اور نہ ہی لاچار"۔

عالمی اسلام پر تنقید کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا ہے کہ "اگر آبادی، پیٹرول اور قدرتی گیس جیسے بیش بہا امکانات کے باوجود عالمِ اسلام کا ایک بڑا حصہ غربت اور جہالت کے ساتھ بر سرپیکار ہے تو اس کی وجہ سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ میں تلاش کرنی چاہیے"۔

صدر ایردوان نے کہا ہے کہ اسلامی جغرافیہ کے پاس توانائی کے بہت بڑے ذخائر ہیں لیکن اس کے باوجود 350 ملین مسلمان بھوک اور افلاس  کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ " امیر ترین مسلمان ملک اور غریب مسلمان ملک کے درمیان فرق 200 گنا سے بھی زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں خواندگی کی شرح 82.5  فیصد ہے جبکہ مسلمان ممالک میں یہ شرح 70 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

علاقے میں جاری جھڑپوں کے خاتمے پر بھی زور دیتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ "دنیا بھر میں ہونے والی جھڑپوں میں جو ہلاکتیں ہو رہی ہیں ان کا 94 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت دنیا میں فروخت کئے جانے والے ہر تین عدد اسلحے میں سے ایک مشرق وسطیٰ جا رہا ہے۔ یعنی مختصراً یہ کہ مسلمان تو ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں لیکن مغرب کے اسلحہ  تجار امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں"۔



متعللقہ خبریں