صدر پوتین کے ساتھ مذاکرات میں شام کی صورتِ حال کا تمام پہلووں سے جائزہ لیا ہے: صدر ایردوان

روس کے دارالحکومت ماسکو میں صدر رجب طیب ایردوان اور روس کے صدر ولادیمر پوتین   کے درمیان ون ٹو ون ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے وفود کے  درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر  پریس کانفرنس سے خطاب کیا

1132336
صدر پوتین کے ساتھ مذاکرات میں شام کی  صورتِ حال کا تمام پہلووں سے جائزہ لیا ہے: صدر ایردوان

صدر رجب طیب ایردوان  نے کہا کہ  شام کے علاقے ادلیب میں دہشت گرد تنظیم کے خلاف ترکی اور روس  مشترکہ طور پر اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

 روس کے دارالحکومت ماسکو میں صدر رجب طیب ایردوان اور روس کے صدر ولادیمر پوتین   کے درمیان ون ٹو ون ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے وفود کے  درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر  پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

اس موقع پر صدر ایردوان نے کہا کہ روس کے صدر کے ساتھ شام کی صورتحال کا تمام پہلووں  سے جائزہ لیا گیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ  ادلیب  مطابقت کے ساتھ ساتھ  چار فریقی سربراہی اجلاس اس کے نتائج پر عمل درآمد پر بھی غور کیا گیا،  ادلیب سمیت علاقے کی پیشرفت جائزہ لیا گیا،  امریکہ کے شام سے  انخلا کا جائزہ لیا گیا،  ترکی اور روس کے درمیان تعاون،  شام میں امن کے قیام،  علاقائی سکیورٹی اور استحکام پر بھی غور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان قریبی تعاون اور قربت کی وجہ سے کئی  ایک   موضوعات پر مثبت پیشرفت اور کامیابی دیکھی گئی ہے۔  ہم اپنے روسی دوستوں کے ہمراہ تعاون کو مزید فروغ دینے کا مصمم عزم رکھتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ امریکہ کے شام سے  انخلاء کے دوران دہشتگرد تنظیمیں صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کر سکتی  ہیں اس لئے ہمیں اس پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس موضوع پر بھی تمام پہلووں  سے غور کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکی ہونے کے ناتے ہمارا واحد مقصد دہشت گرد تنظیم داعش سمیت دہشت گرد تنظیم پی آئی ڈی/ وائی پی جی کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھنا اور ان کا مکمل صفایا ہے۔  اس مقصد کے لئے دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر تعاون کو  جاری رکھنے  کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر رجب طیب ایردوان نے ادلیب اور شام کی آئینی کمیٹی کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے دوستوں سے ادلیب اور شام  کی آئینی کمیٹی کے بارے میں تمام پہلوؤں پر بات چیت کی ہے اور شام کے آئین کو حتمی شکل دینے کے لئے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور شام میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھی مشترکہ طور پر جدوجہد کو جاری رکھا جائے گا۔

 صدر ایردوان نے کہا کہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد وقتی جدوجہد نہیں ہے بلکہ اسکو دیگر تنظیموں کے مکمل خاتمے تک جاری رکھا جائے گا کیونکہ ہمارا مقصد شام میں مکمل طور پر امن و سکون قائم کرنا اور علاقے کے عوام  کی واپسی کے بندوبست کرنا ہے۔  اس سلسلے میں دونوں  ممالک قریبی تعاون کو جاری رکھیں گے۔ جہاں تک شام  کی آئینی کمیٹی کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری ہےاور دونوں  ممالک کے    وزراء خارجہ نے ایک دوسرے سے کبھی رابطہ قائم کر رکھا ہے۔

صدر ایردوان اس موقع پر کہا کہ روس کے صدر کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے معاملے پر بھی غور کیا گیا، ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے یہ موضوع ہمارے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

صدر ایردوان کہا کہ شاخ زیتون فوجی آپریشن کے ذریعے علاقے میں امن قائم کرنے کے بعد  3 لاکھ  شامی پناہ گزین محفوظ علاقے منتقل کیے جا چکے ہیں۔چار ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے کو محفوظ بناتے ہوئے شامی پناہ گزینوں کی واپسی کا سامان کیا گیا ہے تاکہ یہ شامی باشندے پرسکون طریقے سے یہاں پر زندگی بسر کر سکیں۔

 صدر ایردوان نے کہا کہ ہم اسی قسم کے منصوبے پر دریائے فرات کے مشرق کی جانب بھی  عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں آستانہ فارمولے پر کام کر رہے ہیں۔

صدر ایردوان نے کہا کہ آئندہ ماہ ایران کے صدر حسن روحانی کو بھی شامل کرتے ہوئے روس  میں  سہ فریقی سربراہی اجلاس   منعقد کیا جائے گا اور اس کے اور اس کے فورا بعد ایک اعلیٰ سطحی سٹریٹجیک کونسل کا اجلاس بھی منعقد ہوگا۔

بعد میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہو  صدر ایردوان نے کہا کہ" سیف زون"  کے بارے میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا جو سلسلہ جاری ہے اس بارے میں روس کے حکام کے ساتھ بھی تبادلہ خیالات کیا گیا ہے۔ امریکہ نے اس میں ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے روس کے ساتھ اس سلسلہ میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ہے اور اس کے لیے روس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

 صدر ایردوان نے کہا کہ روس کے ساتھ اقتصادیات،  تجارت،  صنعت،  توانائی اور ثقافتی شعبوں میں بھی تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے بات چیت کی گئی ہے اور خاص طور پر حالیہ کچھ عرصے کے دوران روسی سیاحوں کی ترکی آمد میں بڑی تعداد میں ہونے والے اضافہ پر خوشی کا اظہار بھی کیا  ہے۔



متعللقہ خبریں