اگر 2013 میں اسد انتظامیہ کو سنجیدہ جواب دیا گیا ہوتا تو حالات مختلف ہوتے: ابراہیم قالن

بشار الاسد انتظامیہ کی طرف سے 7 اپریل کو ایک دفعہ پھر کیمیائی اسلحے کے استعمال سے متعلق ٹھوس شواہد موجود ہیں: ابراہیم قالن

951838
اگر 2013 میں اسد انتظامیہ کو سنجیدہ جواب دیا گیا ہوتا تو حالات مختلف ہوتے: ابراہیم قالن

ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ شام میں اسد انتظامیہ کی طرف سے کیمیائی اسلحے کے استعمال کے بارے میں ٹھوس شواہد موجود ہیں اور اگر سال 2013 میں اسد انتظامیہ کو سنجیدہ جواب دیا گیا ہوتا تو شام کے بحران کی شکل تبدیل ہو سکتی تھی۔

روزنامہ ڈیلی صباح میں "کیا تیسری عالمی جنگ چھِڑ رہی ہے؟" کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں  قالن نے شام کے حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔

کالم میں ' کیا 7 اپریل کو دُوما میں اسد انتظامیہ کی طرف سے کئے گئے کیمیائی حملے کی وجہ سے امریکہ اور روس کے درمیان جنگ ہو گی؟' ، ' کیا اس وقت درپیش حالات تیسری جنگ عظیم کا ابتدائیہ ہیں؟'  جیسے سوالات کو ایجنڈے پر لاتے ہوئے ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ اگر بڑھا چڑھا کر بیان  بازی کرنے سے پرہیز کیا جائے تو ان سوالات کا جواب نفی میں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جو  مسئلہ ہے وہ یہ کہ "سرد جنگ کے حساب کتاب مکمل نہیں ہوئے"۔ بشار الاسد انتظامیہ کی طرف سے 7 اپریل کو ایک دفعہ پھر کیمیائی اسلحے کے استعمال سے متعلق ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے دُوما میں زہریلے کیمیائی مادے سے متاثر ہونے کی علامات کے ساتھ تقریباً 500 افراد کو طبٰی سہولیات فراہم کئے جانے کے اعلان کا ذکر کرتے ہوئے قالن نے کہا کہ اس  حملے کے نتیجے میں اندازاً  70 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔

قالن نے کہا کہ اسد انتظامیہ نے پہلی دفعہ اپنی عوام کے خلاف کیمیائی اسلحے کا استعمال نہیں کیا بلکہ سال 2013 میں بھی اس سے مشابہہ حملہ کیا گیا جسے امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے ریڈ لائن قرار دیا تاہم اسدا نتظامیہ سے نہ تو اس کا حساب پوچھا اور نہ ہی مستقبل میں ایسے وحشیانہ  حملے  کے سد باب کے لئے کسی قسم کا کوئی قدم اٹھایا۔

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے  مزید کہا ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کی یہ ناکامی روس اور ایران کے پوری قوت کے ساتھ شام میں داخلے کا سبب بنی اور اسد انتظامیہ کی حکومت گرتے گرتے  دوبارہ سے مضبوط ہو گئی۔



متعللقہ خبریں