ترجمان صدر کا بغاوت کے حوالے سے جائزہ

ہمارے پاس ان کو مورد الزام ٹہرانے کے لیے   دسمبر سن 2013   تک  ہمارے پاس ٹھوس دلائل موجود نہیں تھے۔ بعد میں حکومت نے  گولین کے  کارکنان  کے بارے میں  دلائل  یکجا کرنے شروع کر دیے

544277
ترجمان صدر کا بغاوت کے حوالے سے جائزہ

ترجمان  ِ صدر ِ ترکی  ابراھیم قالن   کا کہنا ہے کہ    فیتو  دہشت گرد تنظیم کی  انقلاب لانے کی کوشش کو   اعلی عسکری شوری  کے ماہ اگست  میں اجلاس سے قبل      کیا جانا  محض ایک اتفاق    نہیں ہے۔

ترجمان  قالن نے     (FETO/PDY)     کی  15 جولائی  کی  بغاوت  کی کوشش  اور بعد کی  پیش رفت کے  حوالے سے   لندن   میں واقع  یورپی  خارجہ تعلقات  کی کونسل نامی ایک تھنک ٹینک      اپنے جائزے  پیش کرتے ہوئے کہا کہ  "15 جولائی    کی شب میں  صدر  ایردوان کی آئندہ کے دن  کی  مصروفیات کے حوالے سے  تیاری کی غرض سے انطالیہ  میں تھا۔  جب ہمیں  بغاوت کی اطلاع ملی  تو صدر اور   وزیر اعظم   سیکورٹی قوتوں ، ذرائع ابلاغ اور  اس بغاوت کی کوشش کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوام  سے  فوری  طور پر  ہم نے رابطہ قائم کیا۔  اس شب   میں  نے  ساری رات   مزاحمت کے حوالے سے   بندوبست اور انتظامات کرنے میں  گزاری۔"

قالن نے  بغاوت کے حوالے سے  یورپی یونین  کے رکن  ممالک  کے رد عمل کے  حوالے سے ایک سوال کے جواب میں  کہا کہ "جب  ہمارے  کئی  معصوم شہری  اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے تھے   تو اسوقت    ہماری اتحادیوں   کی جانب سے بغاوت کو غیر اہم تصور کا رویہ  اور حکومت  پر     ملزمین کو نوکریوں سے معطل کرنے  کی الزام تراشی     نے ہمیں  بے حد تعجب دلایا۔ ہم اپنے یورپی  حصہ داروں اور خاصکر  جمہوریت کے  علمبرداروں   کے     ہماری صف میں شامل ہونے کی توقع  رکھتے تھے۔  گو کہ بعض نے اس بغاوت  کی مذمت  کی ہے تو بھی  انہوں نے باغیوں کے حوالے  سے تا حال کسی قسم کا کوئی    بیان     جاری نہیں کیا۔ "

ریٹائرڈ   فوجی  جج  احمد ذکی  اوچوک  نے   بغاوت کی کوشش کے بعد   تحریر کردہ رپورٹ  میں   تنظیم کے  سن 1980  سے   حکومتی اور سرکاری  اداروں    میں سرایت کرنے  کی توضیح  کرنے کی    یاد دہانی کراتے    ہوئے قالن نے بتایا  کہ "  خفیہ کام اس تنظیم کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔   ہمارے پاس ان کو مورد الزام ٹہرانے کے لیے   دسمبر سن 2013   تک  ہمارے پاس ٹھوس دلائل موجود نہیں تھے۔ بعد میں حکومت نے  گولین کے  کارکنان  کے بارے میں  دلائل  یکجا کرنے شروع کر دیے۔    ان کو سن 2013 میں   پولیس اور    عدالتوں سے خارج کرنے کی کوشش کی گئی۔ "



متعللقہ خبریں