داعش کے خلاف جد و  جہد میں ترکی کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے

شام میں  دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف جد و جہد کا دعوی کرنے والوں میں سے کسی نے بھی اتنا جانی نقصان نہیں اٹھایا جتنا کہ ترکی نے اٹھایا  ہے، ترکی کو اس جد و جہد میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ صد ایردوان

486904
داعش کے خلاف جد و  جہد میں ترکی کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ شام میں دہشتگرد تنظیم داعش کے خلاف جد و  جہد میں ترکی کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

صدر ایردوان نے استنبول چیکمے کھوئے بلدیہ  کی طرف سے منعقدہ "انصاف اور مہربانی" کے مرکزی خیال کے ساتھ بین الاقوامی مختصر دورانیے کے فلمی مقابلے کی تقریب تقسیم ایوارڈ میں شرکت کی ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام میں  دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف جد و جہد کا دعوی کرنے والوں میں سے کسی نے بھی اتنا جانی نقصان نہیں اٹھایا جتنا کہ ترکی نے اٹھایا  ہے، ترکی کو اس جد و جہد میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے ایک گوشے میں معصوم انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف  انسان انتہائی بے حسی کے ساتھ زندگی کے عیش و آرام میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ظالم ڈکٹیٹر اور بے رحم دہشت گردی سے بچ کر جب بے کس بچے اور عورتیں دوسرے ممالک میں پہنچتے ہیں تو وہاں انہیں کھلے بازو نہیں بلکہ بند دروازے  اور دیواروں سے بند سرحدیں ملتی ہیں ۔

صدر ایردوان نے کہا کہ شام میں 6 سال سے درپیش حالات کے مقابل انسانیت  نے ایک بُرا امتحان دیا ہے۔

ترکی نے مظلوموں  اور متاثرین کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنے دروازے کھولے ہیں تو اس دوران آنکھیں، کان اور زبانیں بند رکھنے والوں نے اپنی باری آنے پر اپنے دروازے بند کر لئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں رحم نہیں ہے جو انصاف سے عاری ہیں۔ ان میں ڈکٹیٹر شپ ہے اور ظلم ہے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ ہماری طرف سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش  کرنے، سکیورٹی زون تشکیل کرنے اور انسانوں کو ہجرت پر مجبور کرنے والے اسباب کو ختم کرنے کی تجویز پیش کئے جانے کے باوجود  ان ظالم اور بے حس عناصر نے مسئلے کو دوسری طرف کھنچنے کی کوشش کی۔

صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ جو  بھی شام میں جد و جہد کرنے کے دعوے کر رہے ہیں ان میں سے کسی نے بھی ہمارے جتنا بدل ادا نہیں کیا۔ انہوں نے ، ایک طرف سے خود کش  بم حملے اور دوسری طرف کیلیس پر حملے کر کے  ہمیں تکلیف پہنچانے والی اس دہشت گرد تنظیم کے مقابل،  ہمیں تنہا چھوڑ دیا  ہے۔ انقرہ اور استنبول میں ہونے والے بم دھماکوں  پر جس ردعمل کا اظہار کیا گیا اور پیرس اور برسلز میں ہونے والے حملوں پر جس ردعمل کا اظہار کیا گیا  ان کے درمیان فرق، نا انصافی کی ٹھوس شکل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

صدر ایردوان نے اقوام متحدہ کے صرف عیسائیوں کی تشکیل کردہ کونسل ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ 1.7  ملین  کی مسلمان  آبادی والی اس دنیا  میں اقوام متحدہ میں کوئی بھی مسلمان ملک شامل نہیں ہے، کسی مسلمان ملک کا کوئی اختیار نہیں ہے کسی چیز کا تعین کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ہم اس پر آواز اٹھانا جاری رکھیں گے، اس پر بات کرنا جاری رکھیں گے اور اس طرح 5 ممالک کے علاوہ 190 ممالک  کی بھی وہاں نمائندگی کو یقینی بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ شام  کی جنگ کے حل کے معاملے میں اگر 5 رکن ممالک میں سے  ایک نفی میں ووٹ دیتا ہے تو وہاں کوئی معمولی قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکتا۔ انصاف ایسے ہوتا ہے؟ آپ ایسی سلامتی کونسل سے انصاف کی کیسے توقع رکھ سکتے ہیں؟ آخر ہم خود کو کیوں دھوکہ دے رہے ہیں؟



متعللقہ خبریں