وزیر اعظم داود اولو کی نیو یارک میں مصروفیات

ترکی ، شامی انتظامیہ کے تشدد اور کیمیائی اسلحہ کے ساتھ ساتھ "بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم" داعش کی وحشیانہ کاروائیوں کی زد میں ہے

250542
وزیر اعظم داود اولو کی نیو یارک میں مصروفیات

وزیر اعظم احمد داؤد اولو نے ترکی کے شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودوگی کے خلاف ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "لیکن ہم اسی طرح شامی انتظامیہ کی مدد و دفاع کے لیے لبنان یا پھر دیگر ملکوں سے آنے والے جنگجوؤں کے خلاف ہیں۔"
داؤد اولو نے نیو یارک میں اپنی مصروفیات کے دوران اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ترکی ، شامی انتظامیہ کے تشدد اور کیمیائی اسلحہ کے ساتھ ساتھ "بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم" داعش کی وحشیانہ کاروائیوں کی زد میں ہے۔
وزیر اعظم داؤد اولو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موصل اور عراق کے استحکام کے لیے لازمی اقدامات کے معاملے میں ترکی کا تمام تر طرفین کے ساتھ قریبی راستہ ہے۔
شاہ فرات آپریشن کے بارے میں اقوان متحدہ کو کل صبح بریفنگ دینے کی یاد دہانی کروانے والے داؤد اولو نے بتایا کہ ترکی کے اپنے قومی حقوق کا تحفظ کرنے والے اس آپریشن کو اقوام متحدہ کے ریکارڈز میں بھی اسی طریقے سے شامل کیا گیا ہے۔
بان کی مون کے ساتھ ملاقات میں مسئلہ قبرص پر بھی بات چیت کیے جانے کی توضیح کرنے والے داؤد اولو نے بتایا کہ سن 2004 میں عنان منصوبے پر ترک فریق نے اپنی بھر پور حمایت کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لوٹنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم سے ڈالر کی قدر میں سرعت سے بلندی کے بارے میں بھی دریافت کیا گیا، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں بلندی اس کرنسی کی عمومی طور پر دیگر کرنسیوں کے سامنے قدر میں اضافے کے باعث ہے۔
نیو یارک میں مذاکرات کے دائرہ کار میں امریکی خارجہ پالیسیوں کا تعین ہونے والے مرکزی مقام خارجہ تعلقات کونسل کی سالانہ کانفرس میں اعزاز مہمان کی حیثیت سے شرکت کرنے والے وزیر اعظم داؤد اولو نے ترکی کے بارے میں تجسس ہونے والے سوالات کا جواب دیا۔
داؤد اولو نے دہشت گرد تنظیم داعش میں شمولیت کی راہ میں کس طرح رکاوٹیں پیدا کیے جانے کے حوالے سے بھی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "ترکی کو کروڑوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں، ہم ان کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے دہشت گرد ہونے یا نہ ہونے کا پتہ نہیں چلا سکتے۔ ہم نے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کے دوران مشکوک افراد کے ناموں کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں ہم ان اشخاص کو ترکی داخلے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس پیش رفت کے بعد گزشتہ برس دس ہزار افراد کے ترکی میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں