نائب وزیر اعظم نعمان کرتولمُش کا خصوصی انٹرویو

نعمان کرتولمش نے بیرون ملک مقیم ترک تارکین وطن اور ترک نژاد چھ ملین باشندوں کے حوالے سے ہمدردی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ان کو عید کی مبارکباد پیش کی ہے

148549
نائب وزیر اعظم نعمان کرتولمُش کا خصوصی  انٹرویو

سوال: " آپ نئی کابینہ میں غیر ممالک میں آباد تر ک النسل باشندوں اور اقربا برادری کے امور کے نائب وزیر اعظم ہیں۔اس دائرہ کار میں غیر ممالک میں آباد ترک باشندوں کے مستقبل کے بارے میں کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟
نائب وزیراعظم نعمان کُرتولمُش
" ہماری وزارت سے منسلک کام کرنے والے ادارے ترک النسل باشندوں اور اقربا برادری کی کاروائیوں اور امور کی انجام دہی پر ہمیں فخر ہے اور ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھی اس ادارے کے بارے میں بڑے اچھے جذبات پائے جاتے ہیں ۔ یہ ادارہ بڑی اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ پہلے غیر ممالک میں آباد ترک باشندوں ، اس کے بعد ترک تہذیب سے تعلق رکھنے والے علاقے بلقان، کاکیشیا، مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ترک النسل باشندوں اور اس کے علاوہ غیر ممالک سے ترکی آنے والے باشندوں اور نوجوانوں کو اسکالر شپ دینے جیسےمعاملات اسی ادارے کے تحت انجام دیے جاتے ہیں یعنی اس ادارے کو بڑے وسیع اختیارات حاصل ہیں اور یہ ادارہ دنیا میں جہاں بھی ترک آباد ہیں ان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیتا ہے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم ترک تہذیب سے تعلق رکھنے والے باشندوں چاہے وہ کسی بھی جغرافیہ میں آباد ہوں ان کو ترکی لانے کی سہولتیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح اس ادارے کے تحت بڑے اہم امور سرانجام دیے جا رہے ہیں۔ ہر سال ان امور کو انجام دیا جا رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غیر ممالک میں اس وقت چھ ملین کے لگ بھگ ترک النسل باشندے آباد ہیں۔ ان چھ ملین میں سے پانچ ملین یورپ میں اور دنیا کے دوسرے گوشے کی حیثیت رکھنے والے ملک آسٹریلیا میں ڈیڑھ لاکھ ترک آباد ہیں۔ متحدہ امریکہ میں بھی ہزاروں کی تعداد میں ترک آباد ہیں ۔ لاطینی امریکی ممالک میں بھی ترک زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس طرح یہ ادارہ امریکہ ، یورپ، آسٹریلیا ، افریقہ اور ایشیا میں آباد چھ ملین کے لگ بھگ ترک باشندوں کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہے ۔ ان باشندوں کی شہریت سے لے کر ان کو بلیو کارڈ کے اجرا کے مسائل ، وہاں پر موجود این جی اوز کے امور اور ان کو اپنے پاوں پر مضبوطی سےکھڑا کرنے کے علاوہ تمام اقسام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوششیں صرف کی جا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں بلقان، کاکیشیا ، مشرقِ وسطیٰ سمیت کئی ایک علاقوں میں ترکوں کے ثقافتی اور تہذیبی ورثے کا خصوصی خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر مقیم ترکوں کی اقربا برادری کے امور کی انجام دہی میں ان کو بڑے پیمانے پر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ایک دیگر امور جس پر ہمیں فخر ہے وہ دنیا کے مختلف ممالک سے ترکی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبا کی تعداد ہے جو تیرہ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان طلبا کے انتخاب،ان کو ترکی کی یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے اور ان کو ترکی میں قیام کے دوران اسکالر شپ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے قیام و طعام کا بھی بندو بست کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ ان کو ان کے ممالک سے لانے اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کو واپس اپنے ملک بھیجنے کا بھی بندو بست کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سال غیر ممالک سے چار ہزار طلبا کو ترکی تعلیم کے لیے مدعو کیا جائے گا جبکہ اسی ہزار طلبا غیر ممالک سے ترکی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پہلے ہی رجوع کرچکےہیں اور ان میں سے چار ہزار طلبا کا انتخاب کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ چیز ترکی کے ساتھ دلچسپی میں اضافے کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ترکی کے ساتھ دلچسپی میں اضافے میں بیرون ملک مقیم ترکوں اور ترک النسل معاشروں کے محکمے کا کردار نہایت درجے اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی ترک کے مسائل کے ساتھ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہو خصوصی دلچسپی لیتے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم ترکی کے باشندوں کو ان کے قیام کے ممالک میں درپیش باہمی اتحاد جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔ خاص طور پر جرمنی میں مقیم ساڑھے 3 ملین ترکوں سمیت آسٹریلیا، فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں مقیم 6 ملین ترک باشندوں کے درمیان باہمی اتحاد کے اور دیگر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلاشبہ یورپ میں ایک اور تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ نسلیت پرستی اور اسلام فوبیا ہے۔ اس اسلام فوبیا میں حالیہ سالوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اس کے علاوہ نسلیت پرستی اور قومیت پرستی اپنی حدوں کو عبور کر گئی ہے۔ یورپ میں اب ایک ایسا حلقہ موجود ہے کہ جو غیر ممالک کے انسانوں سے بے اطمینانی محسوس کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس میں پورے یورپ کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جرمنی میں ، فرانس میں اور دیگر ممالک میں غیر ممالک کے افراد سے دشمنی کا عنصر موجود ہے اور نتیجتاً سنجیدہ سطح کا خطرہ تشکیل دے رہا ہے۔ خاص طور پر جب اسلام کے نام پر داعش اور اس سے مشابہہ دہشت گرد تنظیمیں انسانوں کے سر کاٹتی اور خونریزی کرتی دکھائی دیتی ہیں تو یہ اسلام فوبیا لابی کہتی ہے کہ"دیکھیں ہم نہیں کہتے تھے کہ "مسلمان دہشت گرد ہیں"۔ان سب باتوں کے مقابل ہمیں چوکنا ہونے کی ضرورت ہے ۔ عمومی مفہوم میں بھی اور ہماری ثقافت کے اہم حصے کو تشکیل دینے کے حوالے سے بھی ہمیں اسلام کو اس کے حقیقی اور خوبصورت چہرے کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے، بیرونی ممالک میں مقیم اپنے شہریوں کو نسلیت پرستی اور اسلام فوبیا کے حملوں سے بچانے کے لئے ان ممالک میں ضروری ثقافتی و فکری سرگرمیوں کو شروع کرنا ضروری ہے۔ بیرون ملک مقیم ترکوں اور ترک النسل معاشروں کا محکمہ ایک طرف اس موضوع پر کام کر رہا ہے اور دوسری طرف ہم ترکی کے بارے میں اور اسلام کے بارے میں مثبت تاثر کو متعارف کروانے کے لئے اور بیرونی ممالک میں مقیم ترک شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے ضروری کاروائیاں کر رہے ہیں۔
سوال : "قربانی باہمی اتحاد اور مل بانٹنے کی خوبصورت ترین مثال ہے۔ لیکن ہم اصل میں اس وقت ایک افسردہ حالت میں ہیں ۔ دنیا کے متعدد حصوں میں مسلمانوں کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے۔ اس افسردگی کی فضا میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔ یہاں ہم آپ سے عید کے موقع پر آپ کے پیغام کی درخواست کرتے ہیں"
ہماری تو یہی تمنا تھی کہ اس عید کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان خوشی کے ساتھ اس تہوار کے مناتے لیکن افسوس کے ہمارے ہمسایہ ممالک بالخصوص شام اور عراق میں صورت حال سب کے سامنے ہے۔ترکی شام اور عراق کے واقعات کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے،ہمیں سب سے پہلے چھتیس ہزار یزیدی مہاجرین کا سامنا کرنا پڑا ۔ ترکی نے بلاکسی مذہبی تفریق اور رنگ و نسل کے اپنی سرحدیں ان مہاجرین کےلیے کھولیں اس وقت ان مہاجرین کی تعداد چوبیس ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ میں یہاں یہ کہہ سکتا ہوں کہ خاص طور سے مغربی دنیا کے بعض حلقوں نے اس سلسلے میں مخالف مہم شروع کی لیکن ترکی نے اپنے ان قریبی ہمسایہ ممالک کو برے وقت میں سہارا دیتےہوئے ان عناصر کا منہ بند کر دیا ۔انہوں کہنا شروع کر دیا تھا کہ ترکی عربوں، کردوں اور سنیوں کو تو پناہ دے سکتےہیں لیکن یزیدیوں کو اپنے ملک میں پناہ دینا مشکل ہوگا لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا ۔کوبانی کے علاقے میں داعش کے حملوں کے باعث فرار ہونے والے کرد بھائیوں کو ہم نے پناہ دی صرف انیس ستمبر کے روز تقریباً اٹھارہ گھنٹوں کے دوران ستر ہزار عراقی کردوں نے ترکی میں پناہ حاصل کی ۔ میرے خیال سے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔ اس کے علاوہ تین روز کے اندر ترکی آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ اٹھاون ہزار تک جا پہنچی ۔ ہم اس خطے میں مشکل میں مبتلا تمام ممالک کےلیے اپنے دروازے کھولے ہوئے ہیں۔ سن 2011 سے اب تک ہم نے تقریباً ڈیڑھ ملین شامی باشندوں کو یہاں پناہ دے رکھی ہے اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا ہے۔اقتصادی لحاظ سے یہ ایک بڑا بوجھ ہے لیکن ہم نے کسی قسم کی پروا کیے بغیر ہمسائیگی کی اعلی قدروں کا خیال رکھا ہوا ہے۔میں بیرونی ممالک میں بسے ترکوں کو یہ بات فخر کے ساتھ کہ سکتاہوں کہ اس وقت انسانی امداد فراہم کرنے کے اعتبار سے امریکہ اور برطانیہ کے بعد ترکی کا شمار تیسرے ملک کے طور پر ہوتا ہے کہ جس میں مالی امداد کے علاوہ ہماری ان ممالک کے عوام سے پائی جانے والی قربت اور انسیت بھی شامل ہے۔ ترکی اپنی روایات کے حوالے سے یہ ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے آپ ذرا یہ بھی سوچیں کہ یہ ڈیڑھ ملین انسان اپنے گھر بار، دیہات، عزیز و اقارب اور ہمسایوں کو چھوڑ کر پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر کیوں کر مجبور ہوئے ؟
یہ لوگ عید کے اس موقع کو افسوس بھرے لمحات کےساتھ گزار رہے ہیں۔ یہ درحقیقت علم نہ ہونے والے حقائق کی طرف ہجرت کرنے والے لوگ ہیں۔ حتی ان میں کہیں زیادہ ابتر حالت میں ہونے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔مرنے والے مارے جانے والے۔۔۔ میانمار سے لیکر فلسطین تک انہیں ہر وقت اپنی جان کھونے کا خطرہ در پیش رہتا ہے۔ اسلامی مملکتوں کے اندر جاری خانہ جنگی سے پیدا ہونے والے مسائل ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ۔ غربت کے پنجے میں پھنسنے والے، نقل مکانی پر مجبور ہونے والے۔۔ اسلحہ اور بموں کے خطرات کا سامنا کرنے والے یہی لوگ ہیں ۔ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سن 1990 سے ابتک ترکی ایک پُر استحکام مملکت کے طور پر اپنے وجود کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالانکہ پہلے بلقان اور پھر قفقاز، بعد میں مشرق وسطی، پھر شمالی افریقہ اور اب مشرقی یورپ ان خانہ جنگوں اور عدم استحکام کے شکار ہیں۔ ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ ترکی استحکام کے حامل علاقے کی خصوصیت کو برقرار رکھے۔ ترکی اس لحاظ سے در حقیقت اپنے اور سیاسی اور معاشی استحکام کو برقرار رکھے۔یہ امن و آشتی کے ماحول میں تمام تر دنیا سے مدد کی پکار کا جواب دے سکنے والے ملک کی حیثیت کو قائم رکھے۔
تا ہم اس سے بھی بڑھ کر کسی کے بھی دوسرے کا محتاج نہ ہونے والی ، ہر کس کے امن اور خوشحالی کے ماحول میں زندگی بسر کرنے والی، ہر کس کے در حقیقت طاقتور طریقے سے اپنی زندگی کو جاری رکھ سکنے والی دنیا کا قیام ہماری دیرینہ خواہش ہے۔ میں اس نقطے پر نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث کی یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ" میں ایک ایسے دور کا تصور کرتا ہوں کہ جب ہدرامت سے سفر پر روانہ ہونے والی ایک عمر رسیدہ عورت بھی کسی قسم کے خطرات کا سامنا کیے بغیر دمشق تک ، حلب تک محفوظ طریقے سے پہنچ سکے"۔ ہم اس نوعیت کے خطے کے قیام کے لیے سرگرداں ہیں، دعا گو ہیں۔انشااللہ اس کی وساطت سے دنیا بھر میں امن و امان اور خوشحالی پیدا ہو گی۔ میں اس موقع پر بیرون ملک میں مقیم تمام تر ہم وطنوں، چھ ملین سے زائد ترک نژاد باشندوں کے ان نیک خواہشات اور دعاؤں میں برابر کا شریک ہونے پر کوئی شبہہ نہ ہونے کے شعور کے ساتھ انہیں عیدالضحی کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ عید کے اس مقدس موقع پر سچے دل سے مل بیٹھنے، دوستی، ہمسائیہ گیری، عزیز و اقارب سے ملن جلن جیسی اقدار کو دہرایا جائیگا۔ یہ لوگ چاہے بیرون ملک میں ہوں ، یا دور دراز کے علاقوں میں۔میں بخوبی جانتا ہوں کہ ان کے دلوں میں ترکی کے لیے کتنی زیادہ اُداسی پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ اس موقع پر یہاں پر مقیم اپنے کنبوں اور رشتہ داروں سے رابطہ کریں گے۔ ہر کس کا مستقبل روشن و درخشاں ہو۔ میں اپنے تمام تر بہن بھائیوں، ترک نژاد تمام تر شہریوں کے امن و سکون اور آشتی کے ماحول میں ڈھیروں عیدیں گزارنے کی تمنا کرتا ہوں۔ جیسا کہ ہمارے آباؤ اجداد کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالی تمام تر نیک خواہشات کو شرمندہ تعبیر کرے، ہمیں ہر طرح کی بلاؤں سے محفوظ رکھے، سب کو عید مبارک۔"

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں