انقرہ: انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجیک تھنکنگ میں "تنازعہ کشمیرقانونی جہت کیساتھ ماضی تا حال" سمینیار

اس سیمینار میں بڑی تعدد میں  ترک  یونیورسٹیوں  کے اساتذہ ، طلباء و طالبات  اور پاکستان کے سفارتکاروں اور پاکستان کمیونٹی  سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی

1859300
انقرہ: انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجیک تھنکنگ میں "تنازعہ کشمیرقانونی جہت کیساتھ ماضی تا حال"  سمینیار

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں  انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجیک  تھنکنگ SDE کے  زیر اہتمام "تنازعہ کشمیر اپنی قانونی جہت کے ساتھ ماضی تا حال " سیمینار   منعقد ہوا۔

اس سیمینار میں بڑی تعدد میں  ترک  یونیورسٹیوں  کے اساتذہ ، طلباء و طالبات  اور پاکستان کے سفارتکاروں اور پاکستان کمیونٹی  سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجیک  تھنکنگ کے سربراہ  پروفیسر ڈاکٹر گیورائے آلپر نے  سب سے پہلے سفیر پاکستان جناب محمد سائرس سجاد قاضی  کا انسٹیٹیوٹ پہنچنے پر استقبال کیا۔

سمینار کے ماڈریٹر  جناب  ڈاکٹر گیوک برق دُرماز     نے سفیر پاکستان کی پیشہ وار زندگی پر معلومات فراہم کیں ۔

پروگرام میں سب سے پہلے  کشمیر کے بارے میں مختلف دستاویزی  فلموں  کو پیش کیا گیا جبکہ  ہال کی راہداری میں  کشمیر کے موضوع سے متعلق   تصاویر پر مبنی نمائش کا اہتمام  کیا گیا  تھا۔

سفیر پاکستان جناب  محمد سائرس سجاد قاضی  نے  اس سیمینار میں مسئلہ کشمیر  کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کشمیر مسئلہ  ،  مسئلہ فلسطین کی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سب سے طویل حل طلب  مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ - اس تنازعہ کی جڑیں 1947 میں برٹش انڈیا کی پاکستان اور موجودہ ہندوستان میں تقسیم تک جاتی ہیں۔ تقسیم  برصغیر  کے فارمولے کے مطابق، جغرافیائی طور پر مسلم اکثریتی  والے علاقے پاکستان  میں شامل کیے جانے تھے اور  ہندو اکثریت والے علاقے ہندوستان میں  شامل کیے جانے تھے۔

کشمیر  میں مسلمانوں کو اکثریت  حاصل تھی اور یہ علاقہ  اپنی سرحدوں اور قدرتی طور پر   پاکستان سے ملا ہوا تھا  لیکن    اسے  اس وقت کے   حکمران کے  کشمیر کے بھارت سے الحاق  کی غیر قانونی  دستاویز  پر دستخط کرکے اسے  ہندوستان میں  شامل کرلیا ۔ ریاست جموں و کشمیر  راجہ کے  اس غیر قانونی فیصلے  کے  خلاف پُر تشدد مظاہرے تیزی سے پھوٹ پڑے ۔

کشمیر  میں اس بحران  پر قابو پانے کے لیے بھارت نے خود ہی اقوام متحدہ سے رجوع کیا  اور جس کے نتیجے میں  جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے  کا فیصلہ کیا گیا  جسے بھارت نے قبول کرلیا ۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 24 جنوری 1957 کو ایک بار پھر قرارداد 122 منظور کی، جس میں متعلقہ حکومتوں اور حکام کو یاد دلاتے ہوئے رائے شماری کروانے کو کہا گیا۔

تاہم بارہا کوششوں کے باوجود عالمی برادری ان قراردادوں پر عمل درآمد کی جانب کوئی بامعنی پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ۔

 تین سال قبل، 5 اگست 2019 کو،  ہندوستانی بی جے پی-آر ایس ایس حکومت نے یکطرفہ طور پر ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیر  کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی نہ صرف  کوشش کی  گئی بلکہ بھارتی قابض افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیاں بشمول ماورائے عدالت پھانسیاں، جبری گمشدگیاں، محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں، مواصلات کی بندش، کشمیریوں پر وحشیانہ جسمانی اور ذہنی تشددکا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جو آج  بھی جاری ہے اور اس تشدد کے نتیجے میں ہزاروں  کشمیری  باشندے  شہید ہوچکے ہیں۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ 5 اگست 2019 کو اپنی غیر قانونی اور یکطرفہ کارروائیوں کے بعد سے، بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمینوں پر قبضے، غیر کشمیریوں کی آمد اور غیر ملکی رہائش گاہوں کے قیام کے ذریعے فوجی قبضے اور آبادیاتی تبدیلی کی ایک جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

بھارت نے کشمیر کی شناخت کو تباہ کرنے کی کوشش میں غیر کشمیری آباد کاروں کو 4.2 ملین سے زیادہ غیر قانونی رہائشی اجازت نامے جاری کیے ہیں۔ یہ اقدامات اقوام متحدہ کے کنونشن، چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 اور یو این ایس سی کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

 اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مسئلہ کشمیر کو یو این ایس سی کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر بھی زور دیا۔ مئی 2021 میں پاکستان کے دورے کے دوران، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکان بوزکر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کے اسٹیبلشمنٹ کنونشن اور یو این ایس سی کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق پرامن طریقے سے تلاش کیا جانا چاہیے۔

 آخر میں، خواتین و حضرات، میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ کشمیری اور پاکستانی عوام ترکی کی حکومت اور عوام کی طرف سے ہمیشہ سے ملنے والی حمایت اور یکجہتی کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔

 صدر ایردوان   کے  2016 اور 2020 میں پاکستان کے دوروں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی تقاریر سمیت مختلف مواقع پر  دیے گئے بیانات   سے ترکی کی مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف  کی کھل کر   حمایت کا اظہار ہوتا ہے جس پر  ہم صدر ایردوان اور ترک عوام  کے مشکور ہیں۔

سفیر  پاکستان نے کہا کہ پاکستان،  کشمیری عوام کی ہر ممکن حد تک سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔

 اس سے  قبل  تھنک ٹینک کے  چئیرمین    پروفیسر ڈاکٹر گیورائے آلپر نے مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ  دنیا کے قدیم ترین  مسائل میں سے  ایک ہے جسے آج تک حل نہیں کیا گیا اور جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جائے گا  علاقے کے عوام  ان مصائب سے گزرتے رہیں گے۔ ترکی ہمیشہ مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا ہے  اور کشمیریوں کی حمایت کو جاری رکھے گا۔

 



متعللقہ خبریں