ترکیہ اور توانائی 24

ریچارج ایبل بیڑیوں کا ماجودہ استعمال اور مستقبل کی ٹینکنالوجی میں ان کا کردار

2151566
ترکیہ اور توانائی 24

موبائل فونز سے لے کر ہیڈ فونز تک، کاروں سے لے کرکمپیوٹرز تک، شیور سے لے کر گھڑیوں تک، ڈرلنگ مشین سے لے کر ویکیوم کلینر تک اور حتی بڑی بڑی بوٹس تک  بہت سے برقی آلات اور گاڑیاں ہماری  زندگیوں کا ناگزیر حصہ بن چکی ہیں۔

ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور وائرلیس ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ضرورت؛ توانائی کا مزید ذخیرہ کرنے اور زیادہ  طویل مدت تک محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کی مانگ  کو بھی بڑھا رہاہے۔

اس  تناظر میں  سائنس دان زیادہ توانائی ذخیرہ کر سکنے والی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے  کے لیے  تگ و دو میں رہتے ہیں ۔

اسوقت  ریچارج ایبل بیٹریوں کو ان کے کیمیاوی مادوں کے مطابق 3 اہم اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ریچارج ایبل بیٹری کی اقسام نکل میٹل ہائیڈرائیڈ، نکل کیڈمیم اور لیتھیم آئن کے  نام سے مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں۔

بیٹریاں تیزی سے  فروغ پانے والی چھوٹے سائز کی ٹیکنالوجیز کے مطابق ڈھلتی ہیں اور ذخیرہ کرنے کی بلند سطح تک  صلاحیت کے حصول  کے لیے  جاری تحقیقات  تقریباً ہر ٹیکنالوجی کو کارآمد بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

نئی نسل کی بیٹریوں اور انرجی سٹوریج کے نظام کی صلاحیتوں کے علاوہ، انہیں  محفوظ اور ماحول دوست کی شکل میں ڈیزان کرنا  اور  ان کی پائیداری کو بڑھانا  مقصود ہے۔ اس میدان میں خاص طور پر نایاب زمینی عناصر جیسے محدود پیداواری امکانات کے حامل  خام مادوں کے متبادل اور محفوظ  حل،  فروغ دی  جانے والی  توانائی ذخیرہ کرنے والی مصنوعات  کو مارکیٹ میں  ہر کسی کے لیے قابل رسائی  لاگت  کے ساتھ تیار کرنے کا  بھی ہدف رکھا  گیا ہے۔

 کچھ نئی نسل کی توانائی ذخیرہ کرنے والی ٹیکنالوجیز، جنہیں سیکنڈوں میں چارج کیا جا سکتا ہے، ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر ری سائیکل کیا جا سکتا ہے، اور حتی  لائف ٹائم  استعمال  کرنے کا موقع بھی دیا جاتا  ہے  نے   عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانا شروع کر دی ہے۔

بیٹریاں، ممالک کی جانب سے آئندہ کے دور  کے لیے وضع کردہ  صفر کاربن اخراج  کے ہدف میں اہم کردار ادا کررہی ہیں ۔ ترکیہ کی طرح بہت سے ممالک اپنے "صفر اخراج" کے اہداف کے پیشِ نظر  جلدنامیاتی  ایندھن کے استعمال کو مکمل طور پر ترک کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں  ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت، عالمی بیٹری مارکیٹ کے 2027 تک 310.8 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ لیڈ ایسڈ، لیتھیم آئن اور نکل پر مبنی بیٹریاں مارکیٹ کے 95 فیصد حصے کو تشکیل دیتی ہیں۔ 2020 میں مارکیٹ میں لیتھیم  آئن بیٹریوں کا حصہ 44.2 بلین ڈالر تھا، تو اس کے  2025 تک 94.4 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع کی جاتی ہے۔

ایس ٹی ایم ٹیکنالوجیکل تھنک ٹینک کی "انرجی سٹوریج ٹیکنالوجیز میں تازہ ترین پیش رفت" رپورٹ کے مطابق توانائی ذخیرہ کرنے والی ٹیکنالوجیز کے  حوالے سے  تین بنیادی بیٹریوں کی اقسام سے بالکل ہٹ کر بھی  بہت سے مطالعات موجود ہیں۔

سویڈن کی چالمرز یونیورسٹی کے محققین اس سے قبل کے ڈھانچوں کے ساتھ موازنہ کرنے سے  10 گنا زیادہ توانائی ذخیرہ  کرنے کی اہل سیمنٹ سے بنی بیٹری کو فروغ دینے  میں سرگرم عمل  ہیں۔  مستقبل کے گھروں کو  ایک بڑی بیٹری میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کی حامل یہ ٹیکنالوجی سیمنٹ پر مبنی مرکب میں چھوٹے کاربن ریشوں کو نصب کرنے سے کام کرتی ہے۔

اگرچہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہونے والی  یہ تحقیق  سیمنٹ بیٹری ٹیکنالوجی کے  اس مرحلے پر مطلوبہ سطح پر  توانائی ذخیرہ  کرنے کی صلاحیت نہ رکھنے کا مشاہدہ کرا  رہی ہے ، اس موضوع پر تحقیقات جاری ہیں۔

گرافین بیٹری ٹیکنالوجیز پربھی  مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر تائیوانی اور امریکی کمپنیاں گرافین ٹیکنالوجی میں  اہم سطح کی  سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

تاہم ان مطالعات سے قطع نظر، تمام متعلقہ سائنسدان بیٹری کی ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی کوشش  میں جو کم وقت میں چارج ہو سکے اور  اس کے استعمال کی مدت زیادہ سے زیادہ ہو۔

بیٹری ٹیکنالوجی کو فروغ دینے  میں سب سے بڑا موقع حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر  عام ہونے والی  الیکڑک گاڑیوں کی   روز بروز بڑنے والی مقبولیت ہے۔

الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کا دورانیہ ، رفتار اور پاور کا تعین بیٹری ٹیکنالوجی سے ہوتا ہے۔ لہذا بیٹری کی کارکردگی برقی گاڑیوں کے وسیع پیمانے پر استعمال  کی راہ میں  اہم  ترین مسئلہ ہے۔

الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریاں بنیادی طور پر تین  مرکزی  اقسام کی حامل ہیں۔ یہ  لیڈ ایسڈ ، نکل میٹل ہائیڈرائیڈ اور لیتھیم آئن بیٹریاں ہیں۔

بیٹری کی  ہر کے مختلف فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں لیتھیم آئن بیٹریاں ہلکی اور دیرپا ہیں  تو لیڈ ایسڈ بیٹریاں زیادہ  کم  نرخ  ہونے کے باعث توجہ  طلب ہیں۔

سائنسدانوں کا سب سے بڑا ہدف اعلیٰ صلاحیت والی بیٹریاں بنا کر گاڑیوں کی رینج کو ہزاروں کلومیٹر تک بڑھانا  ہے۔



متعللقہ خبریں