تجزیہ 23

اسرائیل کی بالا تعطل بربریت اور عالمی سطح پر اس کی تنہائی کا بحران

2150191
تجزیہ 23

اسرائیل کےغزہ پر  حملے بلا تعطل جاری ہیں تو نتن  یاہو انتظامیہ اکیلا رہنے کے ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جو اس نے اپنی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا۔ بائیڈن انتظامیہ اور چند یورپی ریاستوں کے علاوہ کوئی ملک ایسا نہیں بچا جو اسرائیل کی نسل کشی کی پالیسیوں کی کھل کر حمایت کرتا ہو۔ اسرائیل عالمی اور علاقائی سطح پر مکمل طور پر الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے جو  کہ ا سے ل زیادہ محفوظ نہیں بناتا۔ اسرائیل جس نے 7 اکتوبر کے بعد اپنی نام نہاد سیکیورٹی کے لیے 40 ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا، جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے تھے، ایک نئے عمل میں داخل ہو رہا ہے جس کے نتائج اسے بھگتنا ہوں گے۔ 7 اکتوبر کے بعد اپنی نام نہاد سیکیورٹی کے لیے 40 ہزار سے زائد افراد جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے تھے کو قتل کرنے والےوالا اسرائیل اب ایک نئے عمل میں داخل ہو رہا ہے جس کے نتائج اسے بھگتنا ہوں گے۔ یہ صورتحال نہ صرف ریاستِ اسرائیل بلکہ یہودی برادری کے لیے بھی گہرے سیکیورٹی بحران کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر نیتن یاہو کی حکومت نے غزہ میں اپنی بربریت جاری رکھی تو اسرائیل کے سیکورٹی بحران کا ازالہ ناممکن ہو جائے گا اور اسرائیلی ریاست کے وجود کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ ظہور پذیر ہو گا۔

سیتا سیکیورٹی ریسرچ  ڈائریکٹر  پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع  پر جائزہ۔۔۔

 

7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی قانونی حیثیت مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔ اسرائیل نہ صرف ایک قابض طاقت ہے، بلکہ ایک ایسی ریاست بھی ہے جس پر عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے ملزم کے طور پر مقدمہ چل رہا ہے، اس کے رہنماؤں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی سفارت کاری میں تنہا رہ چکی ہے۔  اور تنہائی کی یہ حالت دو اہم نتائج  کو جنم دے رہی ہے، قانونی حیثیت کا نقصان اور گہرا سیکیورٹی بحران۔

پہلا مسئلہ جو اسرائیل کے سلامتی کے بحران کو گہرا کرتا ہے اور اسے  خود کو قائم رکھنے  کے مسئلے میں تبدیل کرتا ہے ، غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف نیتن یاہو انتظامیہ کا وحشیانہ طرز عمل ہے، جن میں نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم شامل ہیں۔اس شکل میں اسرائیل غزہ میں کوئی عام جنگ نہیں کر رہا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھیں تو یہ بھی ممکن نہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں 7 اکتوبر سے جو کچھ کیا اسے جنگ سے تعبیر کیا جائے۔ کیونکہ اسرائیلی فوج کا ہدف عام شہری ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچے ہیں ۔اس کے  استعمال کردہ  تمام تر طریقہ کار اپنے دفاع کے حق کی سرخ لکیروں کو شروع سےہی عبور کر چکے ہیں، اور یہ  شعوری طور پر ایک مخصوص نسلی اور مذہبی معاشرےکو منصوبہ بندی کے تحت   صفحہ ہستی سے مٹانے  کامقصدرکھتے ہیں۔ حال ہی میں، اسرائیل کی جانب سے"محفوظ علاقہ"قرار دی گئی   رفح میں شہریوں کی عارضی پناہ گاہ کو نشانہ بنانا، بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے ایک دانستہ اور قصدی اقدام ہے۔7 اکتوبر سے اسرائیل کے نام نہاد فوجی آپریشن کے تناظر میں، اسرائیلی حکومت نے جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں  آنے والی   متعدد کارروائیاں  کی ہیں۔ان اقدامات کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کے محاذ پر اسرائیل کی قانونی حیثیت گہرے بحران سے دوچار ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالتِ انصاف میں نسل کشی مقدمے کے تناظر میں الزامات نے اسرائیل پر پہلے ہی نسل کشی کرنے والے ملک کا دھبہ لگا  رکھاہے۔عدالت کے فیصلے کے نتائج سے قطع نظر، اسرائیل کی غزہ کی نسل کشی نے اپنے تاریخی افسانوں کے ذریعے بنائے گئے ریاستی تشخص کے عالمی بیانیے کو بگاڑ دیا  ہے۔عالمی عدالتِ انصاف کے نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ، بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اسرائیلی حکام کے حوالے سے گرفتاری اور عدالتی کارروائی  کرنے کے فیصلے پر بحث اسی طرح  اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کے محاذ پر  درپیش ایک دیگر چیلنج ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ اسرائیل کی اقوام متحدہ کے ماتحت اور باہر دو  مقدمات کا حصہ بنتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی بنیادوں پر قانونی حیثیت  نے بحران کو  مزید گہرا ئی دی ہے۔ اسرائیل کی قانونی حیثیت کامعاملہ صرف اس حقیقت تک محدود نہیں ہے کہ اسے اپنے اقدامات کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی نسل کشی کی مرتکب  ایک حکومت ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔یہ عالمی اور علاقائی سطح پر سفارتی طور پر الگ تھلگ ریاست بن چکا ہے۔ اگرچہ اس نے 7 اکتوبر سے پہلے ابراہیم معاہدے کے ساتھ اپنی علاقائی تنہائی پر قابو پانے کی کوشش کی، لیکن 7 اکتوبر کے بعد علاقائی معمول کا خاتمہ ہو گیا اور اسرائیل دوبارہ سفارتی طور پر الگ تھلگ ہو گیا۔

اس عرصے کے دوران کئی ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کی اور فلسطین اور دو ریاستی حل کی حمایت کرنی شروع کر دی۔ حال ہی میں اسپین، آئرلینڈ اور ناروے کی طرف سے فلسطینی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا اسرائیل کو سفارتی محاذ پر ہزیمت سے دو چار ہونے کا  ایک واضح مظہرہے۔ ان ممالک کے ساتھ فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد 142  تک ہو گئی ہے۔

اسرائیل کے ڈپلومیسی محاذ پر  تنہائی کا  ایک اور شعبہ بین الاقوامی اداروں کی جہت ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جس کے طرز عمل پر بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں خاص طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے۔اس لحاظ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے فلسطین کی مبصر کی حیثیت کو تبدیل کرنے والی نئی قرارداد کی منظوری اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف ایک انقلابی قدم ہے۔ اگرچہ یہ قرارداد ابھی تک سلامتی کونسل سے منظور نہیں ہوئی لیکن یہ غزہ میں اسرائیل کے ناجائز طریقوں کے نتیجے میں علامتی طور پر سامنے آئی ہے۔ کئی علاقائی تنظیموں نے بھی اسرائیل کے جنگی جرائم اور غزہ میں نسل کشی پر عمل درآمد کو  اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے اورانہوں نے  ریاستِ اسرائیل کے خلاف سخت بیانات دیے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے محاذ پرقانونی حیثیت قانونی طور پر اور بین الاقوامی سیاست کے محاذ پر سفارتی طور پر  اپنی جائز حیثیت کو کھونے والا  اسرائیل  انسانیت کے ضمیر میں بھی اپنی قانونی حیثیت مکمل طور پر کھو چکا ہے۔ جہاں غزہ میں اس کی نسل کشی کی وجہ سے یورپی دارالحکومتوں بالخصوص امریکا اور دنیا کے کئی ممالک میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے وہیں اسرائیل کی حمایت کرنے والی کئی کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ امریکی یونیورسٹیوں میں دوہرا معیار اسرائیل کے حق میں آزادی پسند ماحول کو محدود کرتا ہے لیکن اسرائیل اور امریکہ کی ایک دوسرے کی حمایت  کی پہلے ہی مذمت کی جا چکی ہے۔ مظاہروں کی یہ لہر گزشتہ20 سالوں  میں مشاہدہ کردہ وسیع ترین  احتجاجی مظاہروں  میں شامل ہونے  کے لحاظ  سےکافی بامعنیٰ  ہے۔

نتیجتاً اسرائیل  اس وقت اپنی قانونی حیثیت کے گہرے بحران سے دو چار ہے۔یہ بحران ،قانونی جہت، بین الاقوامی سفارت کاری اور  انسانی ضمیرسے تعلق رکھتا ہے۔ اسرائیل کے لیے اپنی قانونی حیثیت  کو دوبارہ حاصل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ غزہ میں اس کی نسل کشی کی پالیسیوں کے نقوش  انسانوں کے ذہن سے کبھی نہیں مٹ سکیں گے۔



متعللقہ خبریں