تجزیہ 21

ہیلی کاپٹر حادثے میں ایرانی صدراور دیگر اعلی حکام کی ہلاکت کے واقع پر ایک تجزیہ

2143961
تجزیہ 21

آذربائیجان کے سرحدی علاقے میں صدر الہام علی یف کے ہمراہ مشترکہ بیراج  کے افتتاح کے بعد تبزیز لوٹنے کے لیے پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹر کہ جس پر صدر ابراہیم رئیسی سوار  تھے کے حادثے کا شکار ہونے سے رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان  کے ہمراہ اعلی سطحی وفد  کے تمام ارکان ہلاک ہو گئے۔ ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد ایرانی ریسکیو ٹیمیں کافی دیر تک ملبے کو تلاش کرنے میں ناکام رہیں اور انہیں ترکیہ سے مدد مانگنی پڑی۔ ترکیہ نے اس درخواست کا فی الفور  جواب دیا اور  آکنجی  ڈراون نے امدادی کارروائی  میں حصہ لیا۔ ترکیہ کے اس اقدام کی  وسیع پیمانےپر بازگشت سنائی دی ، لاکھوں انسانوں نے انادولو ایجنسی اور فلائٹ راڈار 24 جیسے پلیٹ فارموں  کے ذریعے  براہ راست نشریات   سے آکنجی  کے ہیلی کاپٹر کو تلاش کرنے کی کارروائی کا مشاہدہ کیا۔  گر کر تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر کو  حادثہ پیش آیا  تھا یا  یہ تخریب کاری  تھی  کا معمہ تاحال حل نہیں ہوا۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔۔

آذربائیجان کے صدر الہام علی یف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے دونوں ممالک کی سرحد پر میڈن قلعے  اور حدافرین ڈیموں کا افتتاح کیا۔ آذربائیجان کی سرحد پر علی یف کے ساتھ مشترکہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تبریز واپسی کے لیے روانہ ہونے والے ایرانی صدر کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر سے رابطہ منقطع ہو جانا اچانک بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ایران کے متضاد بیانات اور رئیسی کی قسمت کے حوالے سے غیر یقینی  کا ماحول صورتحال کی سنگینی کا عکاس  تھا۔ بالآخر  یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ صدر، وزیر خارجہ اور اعلیٰ سرکاری افسران کے سوار ہونے والا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا۔ جب کہ ایرانی ریاستی آلات اور امدادی ٹیمیں طویل عرصے تک ملبے کو تلاش نہیں کر سکیں، انہیں ترکیہ سے مدد مانگنی پڑی۔ترک وزارت دفاع کے بیان کے مطابق ایرانیوں کے رابطے کے فوراً بعد نائٹ ویژن سسٹم کا حامل ایک ہیلی کاپٹر  اور آکنجی کو فوری طور پر خطے کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

آکنجی  اٹاکنگ  ڈراؤن  سرعت سے علاقے میں پہنچا  اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ آکنجی کی طرف سے نشر کی گئی ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ علاقے میں موسم بہت خراب تھا اور طوفان اور دھند نے اس کام کو کافی مشکل بنا یا تھا سیٹ کوم اور ترک سات  سیٹلائٹ کی مدد کے نتیجے میں تھرمل اور دیگر امیجنگ سسٹم  کی بدولت آکنجی نے تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کے مقام کا تعین کر لیا اور  ایرانی حکام کو کوآرڈینیٹ فراہم کیے ۔

ترکیہ کے اس قدم نے وسیع پیمانے کی بازگشت پیدا کی اور لاکھوں لوگوں فلائٹ ریڈار اور انادولو ایجنسی کی براہ راست نشریات میں آکنجی  کے  ہیلی کاپٹر کے ملبے کو تلاش کرنے کی آپریشن کو ملاحظہ کیا۔ جب صبح کے وقت ملبے تک رسائی ممکن ہوئی  تب تک  رئیسی  سمیت ہیلی کاپٹر پر سوار سبھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

آیا کہ یہ  سبوتاژ تھا یا حادثہ؟

کیارئیسی کا ہیلی کاپٹر خراب موسم کی وجہ سے گرا ،یا  یہ کوئی تخریب کاری تھی؟ ابھی تک کوئی صورتحال واضح نہیں ہے۔ متعلقہ ایرانی حکام محتاط طریقے سے تحقیقات کر کےحقیقت کو آشکار کریں گے۔

یقیناً اگریہ تخریب کاری ہے تو سب سے پہلے اسرائیل ذہن میں آتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ غزہ پر حملے کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان پہلے پراکسی اور پھر براہ راست فوجی تصادم ہوئے  لیکن امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو آمادہ کرنے سے اس بحران کے طول پکڑنے کا سدباب کر لیا گیا۔تاہم اسرائیل ایران کے نسبتاً مضبوط حملوں کا بھرپور طریقے سے جواب نہیں دے سکا تھا۔

اسرائیلی حکام بیانات دے رہے تھے کہ وقت آنے پر ایران ہمارا جواب دیکھے گا۔ تاہم یہ بھی علم ہے کہ  زیر استعمال ہیلی کاپٹر کم از کم 30 سال  پرانا تھااور اس میں مشکل موسمی حالات میں اڑان بھرنے کے لیے مناسب تکنیکی آلات موجود نہیں تھے۔ خطے میں شدید طوفان اور دھند کو مدنظر رکھتے ہوئے، موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے حادثے کا امکان قوی دکھتا  ہے۔

بالآخر تکنیکی تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ تخریب کاری کار فرما ہے یا نہیں۔ تاہم ایرانی ریاست کی صلاحیت کے حوالے سے شدید تنقید ناگزیر ہو گی۔ ہیلی کاپٹر کی تکنیکی خرابی، امدادی صلاحیت کا فقدان اور ترکیہ سے مدد مانگنے پر مجبور ہونے کے تناظر  میں اسے کڑی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جب ہم اس مسئلے کا ترکیہ کے نقطہ نظر سے جائزہ لیتے  ہیں، تو ہم ایک ایسے ملک کو دیکھتے ہیں جس نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اپنی ہمسائیگی کا فرض نبھایا ہے۔ ایران کی مدد کی درخواست کا فوری طور پر  جواب دیا گیا  اور تمام تکنیکی ذرائع کو متحرک کر دیا گیا ۔علاوہ ازیں آکنجی اٹاکنگ ڈراؤن اور ترک سات سیٹ لائٹس کی کامیابی  نے بھگ ڈراؤن اور ترک سات سیٹ لائٹ سی  کافی توجہ حاصل  کی اور اس نے ترک دفاعی صنعت کی طاقت کا ایک بار پھر لوہا منوایا ہے۔یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے دنیا بھر میں ترکیہ  کی حاصل کردہ صلاحیت اور قابلیت  کے حامل  امریکہ جیسے چند ممالک  ہی موجود ہیں۔



متعللقہ خبریں