ہماری بہادر عورتیں۔16

استنبول  کے علاقے بائرام پاشا میں ایک چمکدار دن تھا اور بچے ہمیشہ کی طرح گلی میں فٹبال کھیل رہے تھے

2128875
ہماری بہادر عورتیں۔16

استنبول  کے علاقے بائرام پاشا میں ایک چمکدار دن تھا اور بچے ہمیشہ کی طرح گلی میں فٹبال کھیل رہے تھے۔ میچ اپنے پُر ہیجان لمحات میں تھا اور بچے کھیل میں اس قدر مگن ہو چُکے تھے کہ انہیں وقت گزرنے کا اور دِن ڈھلنے کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔

 

اتنے میں ایک بچے کی پُکار بلند ہوئی۔۔۔" ادا۔۔۔ ادا   ۔۔۔گووووول"۔  اس کے بعد ٹیم کے سارے بچے ادا کی طرف لپکے اور اس گول کی خوشی ایسے منانے لگے جیسے انہوں نے عالمی کپ جیت لیا ہو۔ سب کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ ہارنے والی ٹیم نے ان کی خوشی کی پروا کئے بغیر انہیں ڈراتے ہوئے  کہا "کل دوبارہ اسی جگہ پر ملیں گے۔  ہمارا بدلہ سخت ہو گا"۔

 

ٹھیک اسی وقت ایک دراز قد آدمی ان کی طرف آیا اور ادا کو مخاطب کر کے کہا "ادا۔۔۔ چلو بیٹی  ، گھر چلنے کا وقت ہو گیا ہے"۔ باپ کی آواز سنتے ہی بچی نے اس کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے بھاگنا شروع کر دیا۔  بچی شرمیلی بھی تھی اور اس کی آنکھوں میں ہر چیز کے لئے تجسس بھی واضح دِکھائی دے رہا تھا۔ باپ نے نرم لہجے میں بیٹی کو مخاطب کر کے کہا "بیٹی اب تو تم پیشہ وارانہ والی بال کھیل رہی ہے۔ کیا خیال ہے اب تمہیں اس فٹبال کا پیچھا چھوڑ نہیں دینا چاہیے؟" ننھی لڑکی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا " لیکن بابا آپ کو تو پتا ہے فٹبال میرا سب سے بڑا شوق ہے"۔ باپ نے مسکرا کر کہا جانتا ہوں ۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔ اوپر سے  فینر باہچے ہو تو تمہیں کون روک سکتا ہے۔  کلب کا کوئی ایک بھی  میچ ایسا نہیں جو تم نے اپنے چچاوں اور چچا زادوں کے ساتھ  مل کر نہ دیکھا ہو۔ کیسا ہو اگر ایک دن تم فینر باہچے کلب کی کٹ پہنو؟ کہو کیا خیال ہے؟۔

 

یہ سُننا تھا کہ ادا کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ محض خیال ہی اسے بہت اچھا لگا۔ ابھی اُسے نہیں پتا تھا کہ مستقبل میں کتنی کامیابیاں اس کی منتظر ہیں۔ ہماری اس شاندار  اور بہادر عورت کا نام ہے "ادا ایردم دُندار" فینر باہچے والی بال کلب اور ترک قومی ٹیم  کی کپتان۔ ایک ایسی کھلاڑی جس کی کامیابیوں کے اعتراف میں  اس کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔

 

ادا ایردم دُندار 22 جون 1987 کو استنبول میں پیدا ہوئی اور 6 بہن بھائیوں کے ساتھ اس نے ایک شاندار بچپن گزارا۔ اسکول سے لوٹنے کے بعد اس کے وقت کا زیادہ تر حصّہ گلی میں اپنے دوستوں اور چچازاد بہن بھائیوں کے ساتھ ہر طرح کے کھیل کھیلتے ہوئے گزرتا تھا۔ یوں تو وہ ہر کھیل میں ہی دلچسپی لیتی لیکن اُسے سب سے زیادہ فٹبال کھیلنا  پسند تھا۔ جس کلب کی وہ طرفدار تھی وہ فینر باہچے تھا۔ اس قدر کہ خود بھی شہرت حاصل کرنے کے بعد ایک دن جب انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا کہ وہ کسی کلب کی طرفدار ہے تو اس نے فینر باہچے لکھنے کے بعد بریکٹ میں لکھا کہ  "آخر ی سانس تک"۔

 

جب وہ تیسری جماعت میں پہنچی تو بیشک تاش کلب کے کوچ اسماعیل شاہین نے اس کے اسکول کے دورے کے دوران 'ادا ' کی قابلیت دریافت کی۔ یوں بھی اس کی طرف سے لاپروا رہنا ناممکن  تھا۔ اسکول کے بچوں میں وہ سب سے زیادہ دراز قد تھی۔ اس تعارف کے بعد ادا نے 24 دسمبر 2000 کو پہلی دفعہ والی بال ٹریننگ شروع کی۔ یہی نہیں بلکہ دو سیزن تک اس نے بیشکتاش خواتین والی بال ٹیم کی کپتانی بھی کی لیکن اس کے دِل میں جس کلب نے  ڈیرا  ڈال رکھا تھا وہ تھا فینر باہچے۔ آخر کار اس کا خواب پورا ہو ہی گیا اور 12 اگست 2008 کو اُس نے فینر باہچے  کلب کی تجویز منظور کر کے اس کلب کی طرف سے کھیلنا شروع کر دیا۔ اس دن کے بعد سے ادا نے دوبارہ کسی کلب کی کوئی تجویز خواہ کتنی ہی جاذب کیوں نہ ہو قبول نہیں کی اور آخر تک 14 نمبر کی کِٹ کے ساتھ کھیلتی رہی۔

 

کلب کے ساتھ ساتھ وہ 2005 سے ترک قومی ٹیم  کی طرف سے بھی میدان میں اُترنا شروع ہو گئی۔ اس طرح  ادا ایردم بیک وقت قومی ٹیم  کی بھی اور فینر باہچے اسپورٹس کلب کی بھی کپتانی کرتی رہی۔ یوں تو اس نے فینر باہچے کی طرح قومی ٹیم میں بھی بہت سی کامیابیاں حاصل کیں  لیکن اس کی سب سے بڑی کامیابی 2023 کی کامیابی ہے۔

 

ادا ایردم دندار کی کپتانی میں ترکیہ قومی ٹیم،  FIVB انٹرنیشنل لیگ ، CEV یورپی چیمپیئن شپ اور عالمی کپ  کی طرف سے کھیلے گئے اولمپکس کھیلوں کے انتخابی میچوں کی، چیمپئن بن گئی۔ اس طرح ترکیہ قومی والی بال خواتین  ٹیم نے 2023 کے تمام کپ حاصل کر کے تاریخ رقم کر دی۔

ادا ایردم دندار اور اس کی ٹیم کو یہ کامیابی جمہوریہ ترکیہ  کے قیام کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر مِلی اور اس حوالے سے اس کامیابی نے ترکیہ بھر کا اور خاص طور پر ترک عورتوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

 

باپ نے بیٹی کو دیکھا اور جذبات سے لبریز آواز میں خود کلامی کرتے ہوئے  کہا "تم کب اتنی بڑی ہو گئی ہو مجھے تو پتا ہی نہیں چلا ؟"

فتح  کے بعد ادا اسٹیج پر مہمانوں کے سامنے نہایت  شیریں ہیجان اور خوشی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار  کر رہی تھی۔ اپنے بچپن کا ، اپنے خوابوں کا اور اپنے پرستاروں کا ذکر کر رہی تھی۔ باپ نے دوبارہ اپنی بیٹی پر نگاہ ڈالی اور پھر خیال اُسے اپنی بیٹی کے پورے ماضی کی سیر پر لے نکلے "ہاں خواب۔۔۔ تم نے کیا خواب دیکھے اور کیا کیا  کامیابیاں حاصل کیں ۔ والی بال سے شروع کیا، فینر باہچے میں شامل ہوئیں وہاں سے قومی ٹیم تک پہنچیں۔ اس سارے سفر میں تم نے بہت سے کپ، بہت سے اعزازات جیتے اور  اس وقت ہم سب  8 مارچ عالمی یومِ نسواں کے موقع پر تمہارے مجسمے کی تقریبِ رونمائی میں شامل ہیں۔ میری بیٹی تم وہ پہلی عورت کھلاڑی ہو جس کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ صرف باپ کے حوالے سے ہی نہیں اس وطن کے شہری اور اس مٹّی کی اولاد  کے حوالے سے بھی مجھے تم پر فخر ہے۔ میری باحوصلہ، بلند خیال  اور پُر عزم بیٹی"۔

 

ہم  آج کی کہانی ادا ایردم دندار کے نام کرتے ہیں۔ ادا ایردم۔۔۔۔ جس کے خواب ستاروں کی طرح روشن اور ہمت و حوصلہ  بھی ستاروں کی طرح ہی بلند  ہے۔

 



متعللقہ خبریں