تجزیہ 15

مصر کا معاشی بحران اور بعض ممالک سمیت عالمی اداروں کا اس ملک سے تعاون

2127242
تجزیہ 15

بڑے معاشی بحرانوں اور ادائیگیوں کے توازن کے مسائل کا سامنا  کرنے والے مصر کو عالمی نظام نے آب حیات دیا ہے۔ اولین طور پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کے بعد  آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے نئے  معاہدے  کے بعد  عالمی بینک اور یورپی یونین نے مصر کے لیے یکے بعد دیگرے تعاون پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان جون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

مصری معیشت ایک طویل عرصے سے عظیم سطح کے بحران کا شکار ہے۔ عبدالفتاح السیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملکی معیشت بحال نہیں ہو سکی۔ جب کہ فوج کے زیر کنٹرول معیشت میں وسائل کا بہت بری طرح استعمال کیا گیا اور دفاعی مصنوعات کی بلند سطح پر  درآمدات کی وجہ سے ملک کے قرضوں میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ ملک کا غیر ملکی تجارتی خسارہ   بلند سطح پر ہے توملک پر   160 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ چڑھ گیا۔ سنٹرل بینک بیرون ملک سے سواپ کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑا تھا  تاہم غیر ملکی قرضوں کی مالی اعانت میں بڑی مشکلات کا سامنا تھا  اور موجودہ مالی  حالات میں قرضوں کو رول اوور کرنا بہت مشکل دکھائی دے رہا تھا۔

غزہ پر اسرائیل کے قبضے اور اس کے علاقائی اثرات نے مصر کی خراب معاشی صورتحال کومزید بگاڑ دیا تھا۔ ملک میں ماکرو  معاشی محرکات دیوالیہ ہونے کے دہانے پر  تھے تو اوسط مصری  شہری کے لیے صورت حال اس سے بھی بدتر تھی۔ قوت خرید کم ہوتی جا رہی  تھی اور بنیادی ضروریات کی تکمیل بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکی  تھی۔ دس کروڑ سے زیادہ آ بادی  کے حامل مصر کی آبادی ہر سال دس لاکھ سے زیادہ بڑھ رہی ہے اور سماجی طیش زور پکڑ رہا  تھا۔

ایسے  حالات میں جب مصری معیشت دیوالیہ کے دہانے پر تھی، آخر کار ایک عالمی عمل شروع کرتے ہوئے مصری معیشت کو بیرون ملک سے سہارا  ملنا شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے متحدہ عرب امارات نے اس ضمن میں  قدم اٹھایا اور شمالی ساحل پر واقع شہر راس الاخیمہ  میں 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ، جس سے مصر  میں غیر ملکی کرنسی  داخل ہوئی۔

 اگرچہ اس ا قدام کو مصری زمینیں فروخت کیے  جا نے کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے  تا ہم سیسی انتظامیہ اس معاہدے سے مطمئن  ہے،  اس نے مصر کو اپنی غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات اور قرضوں کی ادائیگی  کے لیے ریلیف فراہم کی ہے۔پھر آئی ایم ایف نے  کارروائی کرتے ہوئے مصر کو شرح مبادلہ کی قدر میں کمی  کیے جانے  اور کچھ دیگر شرائط پوری کرنے کی شرط پر  قرضہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔  علاوہ ازیں ورلڈ بینک اور یورپی یونین نے اربوں ڈالر کے پیکجوں کا اعلان کیا ہے۔

قصہ مختصر  مصر نے فوری ضرورت ہونے والے اربوں ڈالر حاصل کر لیے،  لیکن فطری طور پر  سرعت سے ملکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ  سے مصری عوام غریب سے غریب تر  ہوتے جائیں گے  اور کٹھن حالات سے دو چار ہو جائیں گے۔ ایک بار پھر ملک میں کوئی ڈھانچہ جاتی قدم نہیں اٹھایا گیا۔جبکہ معیشت میں فوج کا غلبہ جاری ہے، ملکی وسائل سرمایہ کاری کے بجائے فوجی اخراجات اور غیر موثر منصوبوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔

ملنے  والی امداد مصر کو صرف کچھ عرصے تک اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کا موقع فراہم کرے گی لیکن اگر متعلقہ اصلاحات نہ کی گئیں تو مصری معیشت کے لیے پائیدار طریقے سے دوبارہ پٹری پر آنا آسان نہیں  ہو گا۔

دنیا نے دراصل  اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مصر دیوالیہ نہ ہونے کی حد تک بہت بڑا  ملک ہے، اوریہ  اس بات سے آگاہ ہے کہ ممکنہ اقتصادی دیوالیہ خطے اور دنیا دونوں کے لیے سنگین مسائل پیدا کر دے گا اور خاص طور پر مغربی ممالک  کو نئے تارکین وطن  کے ریلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔  غزہ کے  ساتھ سرحدیں موجود ہونے کے باعث  متعلقہ توازن  مصر کے شانہ بشانہ ہونے کے خواہاں اداکار  فی الحال اس ملک کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھولے ہوئے ہیں۔



متعللقہ خبریں