پاکستان ڈائری - بہار میں خزاں کا موسم

اب پاکستان کے عام عوام تہوار اور خوشیاں منانے سے بھی قاصر ہیں۔مہنگائی اتنی ہے کہ عید پر بھی لوگ اپنے بچوں کے لئے نئے کپڑے جوتے نہیں خرید پاتے۔ راشن نہیں لے پاتے اور دو وقت کی روٹی سے بھی قاصر ہیں

2126784
پاکستان ڈائری  - بہار میں خزاں کا موسم

پاکستان ڈائری -بہار میں خزاں کا موسم

اس دور میں عید منانا کوئی آسان کام نہیں ہے مہنگائی بدامنی سیاسی عدم استحام عوام کی خوشیوں کو نگل گئ ہے۔ غربت اور مہنگائی اتنی بڑھ گئ ہے کہ بات فاقوں تک آگئ ہے۔ عوام خودکشیوں پر مجبور ہورہے کر اپنے گردے تک بیچ رہے ہیں لیکن اشرافیہ کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کبھی کوئی بچوں کے گلے گھونٹ کر خودکشیاں کررہا ہے تو کوئی زہر پی کر اپنی جان دے رہا۔ ہم معاشرتی طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔  جب سیاسی اور معاشی استحکام نا ہو تو حالات عوام کے لئے مشکل سے مشکل ہوجاتے ہیں۔ امرا کے لئے کچھ تبدیل نہیں ہوتا وہ آرام دہ زندگی گزاررہے تھے اور گزار رہے ہیں۔ پر حکومتوں کے آنے جانے میں عوام پس کر رہ جاتے ہیں۔ اس پراشوب دور میں عزت بچاکر رہنا بہت مشکل ہے۔

اب پاکستان کے عام عوام تہوار اور خوشیاں منانے سے بھی قاصر ہیں۔مہنگائی اتنی ہے کہ عید پر بھی لوگ اپنے بچوں کے لئے نئے کپڑے جوتے نہیں خرید پاتے۔ راشن نہیں لے پاتے اور دو وقت کی روٹی سے بھی قاصر ہیں۔ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور بلز میں ہوشربا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ انکی آمدنی زیادہ نہیں ہوئی لیکن انکے خرچے بہت بڑھ گئے ہیں۔ پھر خوف جبر فسطائیت نے رہی سہی کسر پوری کردی۔

ایک وہ والا طبقہ بھی ہے جن کے پاس مالی نعمتیں تو ہیں لیکن وہ خوش نہیں۔ اپریل ۲۲ میں ہونے والے رجیم چینج کے بعد ان پر بہت مظالم ہویے اور انکی زندگی بدل گئ۔ کچھ گھروں میں سسک کررو رہے ہیں۔ کچھ قبرستانوں میں روتے ہیں تو کچھ پتھر کے ہوگئے ہیں۔ پہلے میں سوچتی تھی کہ میں اکیلی ہو اور صرف میں دکھی ہولیکن لوگوں کے دکھ سن کر دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ میں ان غموں میں اکیلی نہیں ہو۔ ویسے بھی اب عید تہوار ویسے نہیں رہے جیسے پہلے ہوا کرتے تھے۔ ہم جیسے نا انصافی کا شکار ہیں اور غریب عوام صرف روٹی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پہلے عید پر لوازمات دسترخوان پر چنے جاتے تھے پر اب تو غریب عوام صرف اس سوچ میں رہتے ہیں کہ بل کیسے دینا ہے بچوں کے سکول اور وین کی فیس کیسے دینا ہے۔ اگلے وقت کا کھانا کیسے کھائیں گے۔ اس سوچ نے خوشیوں کو نگل دیا ہے۔

ہمارے جیسے نا انصافی کا شکار سوچتے ہیں کہ شاید انصاف ہوجائے تو ہمارا کچھ ازالہ ہوجائے لیکن فلحال ایسا ممکن نہیں ہے۔ انصاف دینے والے خود انصاف کے متلاشی ہیں۔ حکومت میں شامل امرا قرضے لیتے ہیں اسکا بوجھ عوام پر آتا ہے۔ عوام پر ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔ جو بولنے کی جرات کرے اسکو غائب کردیا جاتا ہے یا ارشد شریف کی طرح قتل کردیا جاتا ہے یا پھر عمران ریاض کی طرح اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مہنگائی خودکشیاں بیماریاں گرمی عوام اس کی زد میں ہیں لیکن کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں امیر کو این آر او مل جاتا ہے اور غریب کو سزا ہوجاتی ہے۔ اربوں کی کرپشن معاف ہوجاتی ہے لیکن غریب کو بھوک کی وجہ سے روٹی چوری کرنے پر جیل ہوجاتی ہے۔ اس لئے ملک کے حالات یہ ہیں کہ ایٹمی ملک قرضہ مانگتا پھر رہا ہے اور قرضے پر چل رہا ہے۔ ہمارے ملک میں امرا اپنا پیسہ باہر رکھنا پسند کرتے ہیں یہاں تک کہ اولادیں بھی باہر ہیں تو انکو کیسے اس ملک کا درد ہوگا۔ لوگ یہاں صرف حکمرانی کے لئے آتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں۔اس لئے حکمرانی کرنے والے خوشحال ہیں لیکن عوام بدحال ہیں۔ ۔نئ نسل مایوسی کا شکار ہورہی ہے لیڈرز خود دو دو لاکھ والے جوتے پہنتے ہیں اور انکو بیس ہزار والی نوکری نہیں مل رہی۔شاہراہ دستور سے شاید عوام اور انکے مسائل نظر نہیں آتے۔ مجھے کچھ خاص امید بھی نہیں کہ حالات کچھ تبدیل ہونگے۔

 

 



متعللقہ خبریں