تجزیہ 10

اسرائیلی وحشت کا بیانک چہرہ اب بچوں کو فاقہ کشی سے موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے

2113061
تجزیہ 10

حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف شروع کیے گئے اقصیٰ طوفان  آپریشن کے بعد ،غزہ پر اسرائیل کا قبضہ جاری ہے، تو 25 لاکھ انسانوں کے مقیم ہونے والی 360 مربع کلومیٹر کی پٹی کا محاصرہ کرنے کے عمل  کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل اس خطے کو فضا اور زمین سے نشانہ بنا رہا ہے اور شہریوں کا قصدی طور پر قتل عام کر رہا ہے۔ یہ انسانی  امداد کو علاقے تک پہنچنے سے روک رہا ہے جس سے اب لوگ خاص طور پر بچے اور شیر خوار  بچے قافہ کشی سے موت کے منہ میں جانے لگے ہیں۔  تا ہم دنیا  محض اس وحشت اور غیر انسانی فعل کا مشاہدہ کرنے پر اکتفا کر رہی  ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

غزہ پر اسرائیل کا قبضہ تا حال برقرار ہے۔ شہر کا تقریباً 80 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے، 360 مربع کلومیٹر کی پٹی جہاں تقریباً 25 لاکھ شہری آباد ہیں، اس کی  ہر طرف سے ناکہ بندی ہے اور 24 گھنٹے  بھر اس پر  فضا اور زمین سے بمباری کی جاتی ہے۔ اسرائیل ان گھناونی حرکات پر اکتفا نہ کرتے ہوئے انسانی امداد کو خطے تک پہنچنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کر رہا  ہے۔اسوقت  خاصکر شمالی غزہ میں پھنس کر رہ جانے والے  شہری بھوک سے مر رہے ہیں، اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بھاری تعداد میں شیر خوار  بچے اور بچے خوراک کی کمی اور پیاس سے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اس خطے میں جہاں30  ہزار سے زائد شہریوں کو منصوبہ بندی کے تحت بموں کے ذریعے قتل کیا گیا ہے ، لوگ اب خوراک اور پانی تک رسائی حاصل نہ ہونے کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اور بدقسمتی سے یہ سب کچھ دنیا کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔گو کہ  مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اس نظارے پر پردہ ڈالنے کے  لیے مختلف  بیانات اور اقدامات کررہے ہیں  لیکن یہ سب سیاسی اور عسکری طور پروسیع  پیمانے پر اسرائیل کے قبضے اور قتل عام کی حمایت کررہے ہیں۔ خاص طور پر  امریکہ ایک ہوائی پل  تشکیل دے کر تقریباً  روزانہ  فوجی سازو سامان  اسرائیل کو پہنچا رہا  ہے اور یہ بیک وقت  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں میں اسرائیل کے حق میں موقف پر اٹل ہے۔ اگرچہ بائیڈن نیتن یاہو سے مختلف مطالبات کرتے ہیں اور جنگ بندی کے بارے میں بیان بازی کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر اسرائیل کے لیے ان کی حمایت جاری ہے۔

غزہ میں قتل عام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اب بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، مغربی دنیا جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہے، یقیناً ان تمام جرائم میں برابر کی شریک ہے۔ مغرب میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو عالمی ضمیر کی تحریک کا حصہ ہیں، اور وہ اپنی بات کہنے اور اقدامات کو منظم کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ تاہم ریاستی سطح پر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔

نیتن یاہو کی جنگی کابینہ کو علم ہے کہ وہ حماس کو عسکری طور پر ختم کر نہیں کر سکتے ، اس لیے ان کی اصل توجہ حماس پر نہیں بلکہ غزہ کو تباہ کرنے، شہریوں کا قتل عام کرنے اور لوگوں کو جزیرہ نما سیناء میں بھیجنے پر ہے۔ ترکیہ اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک اس شعور کے ساتھ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف اتحاد ِ ضمیر قائم کرنے  میں کوشاں ہیں۔ ۔ تاہم نہ تو اسلامی ممالک اور نہ ہی دوسرے ممالک اسرائیل کو باز رکھنے کے   اقدامات کر پا رہے ہیں ۔  جس کا خمیازہ  غزہ میں عام شہری اور معصوم بچے بھگت رہے ہیں۔

شاید ایران کو ان سے علیحدہ تصور کرنا ضروری ہے۔ ایران اور اس کے پراکسی عناصر  حزب اللہ اور حوثی، اسرائیل کے خلاف کم سطح کے حامل  فوجی  آپریشن کر رہے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر اور بابل مندیب کا راستہ کاٹنا  اس لحاظ سے کارآمد  دکھ رہا ہے ، لیکن یہ اسرائیل کو روکنے کے لیے  واحدانہ طور پر  مطلوبہ سطح کی  ایک حکمت عملی نہیں۔ خاص طور پر، حزب اللہ نے جنگ کے آغاز میں انتہائی سخت بیان بازی کرتے ہوئے کہا تھا کہ' اگر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی  تو ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف لڑیں گے'  لیکن بعد میں  اس بیان بازی پر عمل نہ کرتے ہوئے توقع سے بہت کم سطح کی کاروائیاں کی ہیں۔ یقیناً خطے میں امریکہ کی مضبوط فوجی موجودگی اور اس کے  خطرات یہاں کارگر دکھائی دیتے ہیں۔

علاوہ ازیں اسلامی ممالک اسرائیل کو سفارتی، سیاسی اور عسکری طور پر روک سکنے کی سطح  کی کسی  آپریشن  کو کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ ،اسرائیل کے  قتل عام کا فریق  بننے کی شکل میں  اسے فوجی اور سیاسی مدد فراہم   کر رہے ہیں۔



متعللقہ خبریں