کیا آپ جانتے ہیں۔62

کیا آپ کو معلوم ہے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک کی وفات کی خبر کی بازگشت پوری دنیا میں سُنی گئی؟

2060797
کیا آپ جانتے ہیں۔62

کیا آپ کو معلوم ہے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک کی وفات کی خبر کی بازگشت پوری دنیا میں سُنی گئی؟

 

10 نومبر 1938 کو جمہوریہ ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی وفات پر صرف ترکیہ میں ہی نہیں دنیا بھر میں افسوس کا اظہار کیا گیا۔ اس خبر پر متعدد ممالک میں قومی سوگ کا اعلان کیا گیا اور ایک مہینے کے لئے پرچموں کو سرنگوں کر دیا گیا۔ بعض ممالک میں اسکول بند کر دیئے  گئے۔ کچھ ہی سال قبل جو ممالک دشمن کی حیثیت سے ترکیہ کے مقابل آئے تھے ان میں بھی اتاترک کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

 

مصطفیٰ کمال نے جمہوریہ ترکیہ کی خارجہ سیاست کی بنیاد قومی خود مختاری اور 'ملک میں امن دنیا میں امن' کے اُصول پر رکھی۔ ان کا ہدف دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ اعلانِ جمہوریہ کے بعد سے ان کی وفات تک متعدد ممالک کے حکمرانوں  نے  ترکیہ کا دورہ کیا۔ ایسے ممالک جو مصطفیٰ کمال کو ذاتی حیثیت سے نہیں بھی جانتے تھے وہ بھی ان کی زیرِ قیادت ترکیہ کی ترقی سے واقف تھے اور اس کو سراہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کی خبر دنیا بھر کے اخباروں میں شائع ہوئی۔ سرکاری اکابرین اور روشن خیال افراد نے اتاترک کی وفات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیئے۔ ان میں سے بعض آپ کی نذر ہیں:

 

افغانستان کے شاہ امان اللہ خان نے 1928 میں جمہوریہ  ترکیہ  کا دورہ کیا اور  مصطفیٰ کمال اتاترک سے ملاقات کی ۔ مصطفیٰ کمال کی وفات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اتاترک صرف ترکیہ کا ہی نہیں پورے مشرق کا بڑا تھا"۔

 

ایسے دور میں کہ جب دنیا پر دوسری جنگ عظیم کی سائے منڈلا رہے تھے جرمن تاریخ دان پروفیسر ہربرٹ میلزیگ نے کہا کہ "اس پریشان حال دنیا میں قیامِ امن کے اور انسانیت کی صرف مادی ہی نہیں معنوی ترقی کے بھی خواہش منداتاترک کی ایمان افروزی اور  قائدانہ صلاحیت سے مثال اور قوّت حاصل کریں"۔

 

یونانی جرنیل میتاکساس ایک ایسے جرنیل تھی کہ جو جنگ نجات میں ترکوں کی فتح کے بارے میں پُر یقین تھے۔ اتاترک کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ترک ملت کے پاس  ایک ایسا لیڈر ہے جس کے وہ بے حد و حساب پرستار ہیں۔ میتاکساس نے 1937 کو انقرہ کا دورہ کیا اور مصطفیٰ کمال اتاترک کے ساتھ ملاقات کی۔ اتاترک کی وفات پر انہوں نے کہا کہ " وہ صرف ترک تاریخ کا ہی ایک اہم نام نہیں تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی  امن پسند شخصیت  بھی تھے۔ ان کا بنایا ہوا نیا ترکیہ ایک ایسی یادگار ہے جو سینکڑوں سالوں تک منتقل ہوتی رہے گی"۔

 

برطانیہ کے روزنامے ٹائمز نے لکھا کہ " اتاترک نے بادشاہت کی شان و شوکت  کی اور خلافت کی جاذبیت کی پروا کئے بغیر اپنی نگاہوں کو اناطولیہ کے کسانوں پر مرکوز کر لیا۔ وہ اناطولیہ جو اس کے فوج کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے"۔

 

ایران کے روزنامے تہران نے اتاترک کی وفات کی خبر ان الفاظ کے ساتھ شائع کی " اتاترک جیسے ذہین انسان صرف ظاہری موت مرتے ہیں  لیکن حقیقت میں اپنے کاموں کی بدولت دائمی زندگی حاصل کر لیتے ہیں"۔  



متعللقہ خبریں