پاکستان ڈائری - عالمی یوم جمہوریت

دنیا بھر میں 15 ستمبر کو یوم جمہوریت منایا جاتا ہے تاکہ جمہوری اقتدار اس کی اہمیت افادیت پر مزید ضرور ڈالا جاسکے

2037421
پاکستان ڈائری - عالمی یوم جمہوریت

پاکستان ڈائری - عالمی یومی جمہوریت

دنیا بھر میں 15 ستمبر کو یوم جمہوریت منایا جاتا ہے تاکہ جمہوری اقتدار اس کی اہمیت افادیت پر مزید ضرور ڈالا جاسکے۔ پاکستان کو بھی یہ دن منانا چاہیے۔ تاکہ یہاں بھی جمہوری اقتداد پھل پھول سکیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو کبھی بھی تسلسل کے ساتھ چلنے نہیں دیا گیا۔ ایک ملک جس کو بنے ہوئے 75 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے وہاں آج تک کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرپایا کوئی عدالتی فیصلوں کی نظر ہوگئے کوئی مارشل لا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ پاکستان جمہوریت میں بہت پیچھے رہ گیا ہے جدید دنیا مارشل لا ون مین شو یا موروثیت کو پسند نہیں کرتی ۔ اگر ہم اپنی حالیہ تاریخ کی طرف دیکھیں تو جس طرح پی ڈی ایم نے جموریت کی دھجیاں اڑائی ہیں اسکی مثال نہیں ملتی۔ ایک جادو کی چھڑی سے ایک دوسرے کی شکلیں نا دیکھنے والے تحریک انصاف کے خلاف متحد ہوگئے اور وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ سے چلتا کیا۔

 سب حیران تھے کہ ایسا کیسے ہوا کہ ان سب کو متحد کس نے کیا اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لئے کیوں تیار ہوئے۔ عمران خان کو گھر بھیج دیا گیا عوام دیکھ رہے تھے کہ آخر ہوا کیا  جو ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے وہ سب دوست کیسے بن گیا۔ اقتدار ایسی ہی چیز ہے جس میں سب دوست بن جاتے ہیں پاکستان میں ویسے بھی سیاست اچھی کمائی ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ووٹ کوعزت دو، سویلین سوپرمیسی اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتی تھی۔ ان کا یہ دعوی تھا کہ ہم عوامی جماعتیں ہیں اور ہم صرف عوام کی طاقت سے یہاں تک آئی ہیں۔ میرے نزدیک اکثر جماعتیں ہمیشہ ڈیلز این آر او کے ذریعے سے آتی ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں جمہوریت کمزور ہے اور یہ جمہوریت موروثیت پر کھڑی ہے۔ طاقت کا محور عوام یا انکا ووٹ نہیں ہے یہ نا نظر آنےوالی طاقتوں کے پاس ہے۔  


پی ٹی آئی میں موروثیت کم ہے اور عمران خان کے خاندان میں انکا کوئی سیاسی جانشین نہیں ہے۔ اس ہی طرح جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم میں بھی موروثیت نہیں ہے۔تاہم پی پی پی ۔ مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق ، جے یو آئی ف ، اے این پی اور دیگر جماعتوں میں موروثیت موجود ہے ۔ یہ جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے۔ نوے کی دہائی میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن آپس میں لڑتے رہے لیکن اب وہ اقتدار کے لئے متحد ہیں انہوں نے مل کر تحریک انصاف کی حکومت گرادی۔ موروثی سیاست یا تو صعنت کاروں کے بچے ہیں یا پھر وہ جاگیرداروں زمین داروں کے بچے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے متوسط طبقہ اپنی نمائندگی اسمبلی میں بھیج سکے۔ آج تک کوئی بھی ایسا سیاسی خاندانودہ اسمبلی میں نہیں آیا جوکہ متوسط طبقے سے ہو۔ سیاست صرف امیروں کا کھیل ہے۔

سیاست دان کا بچہ صرف سیاست دان ہی ہوسکتا ہے لازمی نہیں اس میں یہ قابلیت ہو۔ پر ہمارا ملک بری طرح زات برادری میں پھنسا ہوا ہے اس پر ہی ووٹ ملتے ہیں۔ ایک اچھا سیاست دان اسمبلی تک اس لئے نہیں پہنچ پاتا کیونکہ اسکے پاس پیسہ نہیں ہوتا اور ایک امیر کبیر خاندانی نام نہیں ہوتا ۔ہمیں متوسط طبقے سے نے چہروں کی ضرورت ہے دو لاکھ کی جوتی پہننے والا سیاست کا بچہ اور بچی غریب عوام کے مسائل نہیں حل کرسکتے۔  

پاکستان میں بہت سے اہم عہدے ہیں جس پر طاقت ور لوگ راج کرتے ہیں۔ پر احتساب سب کا نہیں ہوتا ۔ احتساب کے نام پر صرف سیاست دانوں کو زیرعتاب لایا جاتا ہے۔ یوں تو حکومت میں بہت سے عہدے ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں وزیراعظم کو خاص طور پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ نا اس کا اقتدار سکون سے گزرتا ہے نا ہی اپوزیشن کے دن وہ چین سے گزار پاتا ہے۔انکو بدنام کیا جاتا ہے سزائیں دی جاتی ہیں یہاں تک کہ انکو ملک چھوڑنا پڑجاتا ہے۔ کچھ ان میں سمجھ دار ہوگئے انہوں نے اپنے خاندان اور بزنس ہی باہر شفٹ کردئے بس حکمرانی کرنے آتے ہیں اقتدار ختم ہوئے ہی اپنے ملک لوٹ جاتے ہیں۔

اس وقت انتقامی سیاست عروج پر ہے عمران خان سمیت سینکڑوں کارکنان جیل میں ہیں۔ عوام مہنگائی سے بدحال ہیں وہ کیا یوم جمہوریت منائیں گے جب ملک میں جمہوریت موجود ہی نا ہو۔ ان تمام مسائل کا حل الیکشن ہے اور صاف ستھری کرپشن فری قیادت کے آنے میں ہے۔ امید ہی کرسکتے ہیں لیکن امکان تو دور دور تک نہیں۔

 



متعللقہ خبریں