تجزیہ 40

ترکیہ میں انتخابات کے بعد ترک خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے ماہر کا اہم تجزیہ

1994590
تجزیہ 40

یہ دور انتخابات کے بعد ترک خارجہ پالیسی کے بارے میں  بات کرنے  کا اہم ترین وقت ہے۔ ہم نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ترک خارجہ پالیسی میں صدر رجب طیب ایردوان کی ثابت قدمی کے جاری رہنے کا پہلے بھی ذکر کیا تھا۔  نئے دور میں  خارجہ پالیسی کے نمایاں عنوانات کیا ہوں گے؟ اور  خارجہ  پالیسی  کا سلسلہ  کس نوعیت کا ہو گا؟

سیتا سیکیورٹی ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا اس موضوع پر تجزیہ ۔۔۔

ایسا لگتا ہے کہ ترک خارجہ  پالیسی کے ایجنڈے میں شام اہم ترین عنوان  شام ہو گا۔ کیونکہ شام کئی ایک پہلووں کے اعتبار سے  ترکیہ کے لیے قریبی دلچسپی کا حامل ایک معاملہ ہے۔ انسداد ِ دہشت گردی ،  پناہ گزینوں کی وطن واپسی ، امریکہ سمیت دیگر عالمی سربراہان  کے ساتھ تعلقات  کا قیام ان معاملات میں  شامل  ہیں۔ اس وجہ سے صدر ایردوان کی پہلی ترجیح شام میں جاری عمل کو بلا کسی رکاوٹ کے کامیاب انجام سے ہمکنار کرنا ہو گی ۔ جاری عمل کے حوالے سے غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ایک خاص روڈ میپ تشکیل پا چکا ہے۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس روڈ میپ کو ماسکو میں منعقد ہونے والے وزرائے خارجہ کے آخری اجلاس میں چہار رکنی شکل میں برقرار رکھا جائے گا۔ پناہ  گزینوں کی وطن واپسی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور شام میں ایک  جامع حل تک پہنچنا اس روڈ میپ کے اہداف میں شامل ہیں۔ویسے بھی اس چیز کا مشاہدہ  ہو رہا ہے  کہ ترکیہ پناہ گزینوں کی واپسی کے حوالے سے پہلے سے ہی  مزید ٹھوس اقدامات کر رہا ہے۔  شمالی شام میں واپسی کے لیے شروع کیا  گیا بنیادی ڈھانچے  کے قیام کا منصوبہ اس پالیسی کے ٹھوس نتائج میں سے ایک ہے۔ تا ہم وائے پی جی کے مسئلے کے طریقہ حل اور کس شیڈول پر آگے بڑھنے کے معاملے میں فی الحال قطعی ماہیت حا صل نہیں کی۔

دوسری جانب پناہ گزینوں کی اسد انتظامیہ کے ماتحت علاقہ جات کو واپسی کا معاملہ بھی تا حال  ایک معمہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ پناہ گزین اسد کے زیر کنٹرول علاقوں کو لوٹنے کے خواہاں نہیں ۔ چونکہ یہ علاقے پناہ گزینوں کے لیے سنگین خدشات کا موجب  ہیں۔  لیکن اس مرحلے پراگر  اسد اور عرب ممالک کے درمیان حالیہ چند ماہ میں جاری مذاکرات کو بالائے طاق رکھا جائے تو یہ کہنا ممکن ہے کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ سکھ کا سانس لینے والا ملک ترکیہ ہو گا۔لہذا  پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے معاملہ عرب  ممالک سے ہم آہنگی قائم کرنے سے یہ سلسلہ کہیں زیادہ صحت مند منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ سکتا  ہے۔

خارجہ پالیسی  کے نئے دور میں  ایک دوسرا اہم موضوع  یوکرین میں جاری جنگ ہے۔ جب ہم جنگ اور جنگ کے دوران ترکیہ  کی خارجہ پالیسیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں  تو  یوکیرین   بحران کے ترکیہ کی خارجہ پالیسی  سے متعلق موقف    کے اب کے بعد کے روڈ میپ  کو متاثر کر سکنے کی حد تک ا ہم ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

ترکیہ کی پہلی ترجیح اپنی موجودہ پوزیشن کو مستحکم طریقے سے برقرار رکھنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ترکیہ یوکرین کے بحران میں ثالث کا کردار ادا کرتا رہے گا، بحران کی وجہ سے خود اور دنیا دونوں کے لیے تشویشناک مسائل پر اپنی پوزیشن مضبوط کرے گا، اور جنگ کے مزید طول پکڑنےیا دوسرے ممالک تک پھیلنے  کا سد باب کرنےکی کوشش کرے گا۔  روس کے ساتھ تعلقات کا اب یوکرین کے بحران سے گہرا تعلق موجود ہے۔

یقیناً ترکیہ اور روس کے تعلقات کا فریم ورک کافی وسیع ہے۔ یہ  محض  یوکرین کے معاملے  تک محدود نہیں ہے۔ تاہم یہ  بھی بالکل واضح ہے کہ یوکرین ایک فیصلہ کن فائل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا  یوکرین کے معاملے میں کوئی  نمایاں  تبدیلی متوقع نہیں ہے۔لیکن  یہ بات  بھی عیاں ہے کہ جنگ کی  ڈگر  میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ترکیہ اور مغرب کے درمیان تعلقات کا ایک نیا ماڈل تیار کیا جانا چاہیے۔اب  یورپ اور نیٹو کے لیے ترکیہ  کی اہمیت  کا  واضح ادراک   ہو چکا ہے۔

دوسری جانب یورپ اور امریکہ  کی  روس کو یوکرین میں ناکامی سے دو چار کرنے کی پالیسیوں کا  کس حد تک جاری رہنا  بھی ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔  یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ ان کی موجودہ پالیسیاں  کچھ زیادہ بار آور  ثابت نہیں ہوئیں ، یہ جنگ   کے جاری رہنے   کا موجب بن رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں پورے یورپ  کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے محرکات کی ماہیت اختیار کررہی ہیں۔  اس  سبب  یوکرین  کے بحران کے حوالے سے ترکیہ کی اپنائی گئی پوزیشن  کے باعث اس  پر دباو پڑنے کا احتمال  معدوم دکھائی دیتا ہے۔

اس کے بر عکس  نئے دور میں یورپ اور ترکیہ کے مابین  ترکیہ  کی  بڑھنے والی سٹریٹیجک اہمیت  کے حوالے سے  کسی نئے ماڈل  کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔  دوسرے الفاظ میں  ترکیہ کے ساتھ   جھگڑا کرتے ہوئے، ترکیہ مخالف پوزیشن کو وسعت دیتے ہوئے  یا پھر  ترکیہ مخالف محاذ قائم کرتے ہوئے ترکیہ  کو اپنے ساتھ ملانا ناممکن ہے۔  اس وجہ سے  یورپ  اور ترکیہ کے درمیان یوکرین بحران کے  مزید رسک   پیدا  کرنے کے احتمال کے  برخلاف   کسی نئی حکمت عملی کی مصالحت کو منظر عام  پر لانے کی ضرورت ہے۔  اس مصالحت کے لحاظ سے  ترکیہ کی   پوزیشن  قدرے  واضح ہے۔  ترکیہ کے مفادات اور سلامتی یورپ سے براہ راست تعلق رکھتی ہے  تا ہم  ضرورت پڑنے پر یہ آزاد انہ طور پر  حرکت کر سکنے والی ایک استثنائی پالیسی ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں نہ تو یورپ کے ساتھ دو مختلف محاذوں میں حصہ لینا اور نہ ہی روس کے خلاف یورپ کے موقف کو  بغیر کسی کے  سوال کے اپنانا ہے۔ یہ ترکیہ  اور یورپ کے تعلقات میں نئے دور کا سب سے اہم نعرہ ہوگا۔

نئے دور کا ایک اور اہم ترین معاملہ  ترکیہ اور امریکہ کے تعلقات ہوں گے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم اچھے دور سے گزر رہے ہیں۔ ترکیہ-امریکی تعلقات کے محرکات، مشترکہ مفادات اور خطرے کے تصورات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اب بدلتے ہوئے بین الاقوامی نظام کی محرکات  بھی ترک امریکہ تعلقات کو متاثر کررہی ہیں۔

البتہ مشترکہ مفادات  کے میدان میں تا حال   تواتر کے حامل عناصر  موجود ہیں  ، تا ہم ، ان مفادات کے مشترکہ  پہلووں کا  ذکر نہیں کیا جا سکتا۔   خطرات   کے تصور کے حوالے سے یقیناً  شراکت داری  کی بات کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد  ان میں سے ایک ہے۔  لیکن  وائے پی جی کے معاملے کو مشترکہ خطرے سے ہٹ کر  ترکیہ  کے لیے امریکہ سے تعلق ہونے والے ایک خطرے کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔  اس مسئلے کو حل کیے بغیر  ترک۔ امریکہ تعلقات میں  قابل ذکر پیش رفت کرنا  کچھ زیادہ ممکن نہیں دکھائی دیتا۔  لیکن اس کے ساتھ نئے دور میں  پیش رفت  کی توقع ہونے والے بعض عوامل ضرور   پائے جاتے ہیں۔ مثال  کے طور پر ایف۔ 16 کے معاملے میں  مستقبل قریب میں   پیش رفت  کا حصول  زیر بحث آ سکتا ہے۔  دو طرفہ تعلقات میں معیشت  کا موضوع اولیت  کے   معاملات میں  شامل ہو گا۔  دو طرفہ  تجارتی تعلقات    کا 1 سو ارب ڈالر کے  ہدف  تک پہنچنا  اس  اعتبار سے  ایک   نمایاں  عنصر ہے۔  ترک ۔ امریکہ تعلقات میں   کسی نئے  سٹریٹیجک فریم ورک کی ضرورت در پیش ہے۔   ہم ترکیہ۔ یورپ  تعلقات  کی طرح  اس  معاملے میں بھی ترکیہ کے  نئے دور میں اسی جیو پولیٹکل فریم کو اپنانے کا مشاہدہ  کریں گے۔   دوسرے الفاظ میں  ترکیہ اپنی خود مختاری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی موقف کا مظاہرہ  کرے گا۔ تاہم، یہ خود مختاری امریکہ مخالف اور مسلسل محاذ آرائی کے انداز میں آگے نہیں بڑھے گی۔

نئے دور  میں سب سے زیادہ تجسس پائے جانے والے معاملات میں  سے ایک مشرق وسطی اور خطے  میں    حالات کو معمول پر لانا ہے۔یہ  معاملہ  خارجہ پالیسی  کی ایک اہم فائل   کی حیثیت کو برقرار رکھے گا۔یہ کہنا ممکن ہے کہ ترکیہ  خطے میں حالات کو معمول پر لانے کے عمل کی حمایت کو جاری رکھے گا۔

 اگرچہ علاقائی معمول پر آنا مسائل کے حل میں زیادہ حصہ نہیں ڈالے گا، لیکن اس سے  خطے میں کشیدگی میں گراوٹ لانے ، جھڑپوں کا خاتمہ کرنے اور ممکنہ تعاون کو گہرا کرنے کے تناظر میں معاونت ضرور ملے گی۔ اس طرح کا علاقائی اتحاد خاص طور پر ترکیہ کے اقتصادی مفادات  میں بار آور ثابت ہو گا۔  ایسا دکھتا ہے کہ  نئے  د ور میں مشرق ِ وسطی کے ساتھ تعلقات  کہیں زیادہ  واضح  اور پیش پیش رہیں گے۔

انتخابات کے بعد ترک خارجہ پالیسی میں ترک مملکتوں کی تنظیم  کے ذریعے وسطی ایشیا میں  گہما گہمی کا دور  بھی ہو گا۔  ایشیا کی طرف رحجان  کے عمل کو جاری رکھا جائیگا اور خطہ افریقہ کے ساتھ تعلقات   کو ایک نئی سطح تک لیجایا جائیگا۔  ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی نظام تناؤ کا شکار ہے اور خطے میں حالات  معمول پر آ رہے ہیں ،  ترکیہ  ان دونوں کو مدغم معمول پر آ رہا  شکار ہے اور خطہ کرنے والے کسی  نقطہ نظر کو اپنا کر اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مزید مستحکم کرے گا۔



متعللقہ خبریں