تجزیہ 22

سویڈن میں قرآنِ پاک کو شہید کرنے کی کاروائی اور اس کے دنیا بھر میں ممکنہ اثرات پر ایک جائزہ

1938895
تجزیہ 22

سویڈن میں ڈنمارک  کے   انتہائی  دائیں بازو  کے سیاستدان پالو دان  کی طرف سے ترک سفارتخانے   کے سامنے قرآنِ کریم  کو شہید کیے جانے نے  ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔  اس  سے  پیشتر بھی  اسی طرح کی حملہ آور کاروائیوں کے مرتکب   ہونے والے اور ان جرائم کے باعث سزا پانے والے پالودان  کا  اس گھناونی حرکت کاسویڈ ن  میں ارتکاب کرنا قدرے   حیرت    کی بات ہے۔ کیونکہ  نیٹو کے سلسلہ رکنیت میں سویڈن کو  ترکیہ کی حمایت درکار ہے اور  دہشت گرد تنظیم PKK سے متعلق پالیسیوں کی بنا پر  یہ ابھی تک  ترکیہ سے مثبت جواب  حاصل  نہیں کر پایا۔   اس  بنا پر یہ   فعل محض  اسلام مخالف دشمنی   تک محدود نہیں ۔  لیکن اس   مذموم حملے کو آزادی اظہار کے نظریے   کے دائر کار میں تصور کرنا ایک غلط اور انتہائی خطرناک فعل ہے۔

سیتا سیکیورٹی  ریسرچ ڈائریکٹر  پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔

اس مسئلے کا اہم ترین پہلو  اس  جارحانہ  کاروائی   کا قانونی   محور   ہے۔ سویڈش  اداروں کی جانب سے  اس مذموم  کاروائی کی آزادی  اظہار کے جواز میں  اجازت  دینا ، انسانی حقوق اور اظہار بیان کی  آزادی کی حدوں کو پار کرنے والی  ایک صورتحال   کو تشکیل دیتا ہے۔   سویڈن کے حکومتی سطح پر   سرکاری بیانات میں کھینچی گئی  ایک طرح کی "آزادی بیان" کی مفاہمت  حقیقی صورتحال   کی رو سے بنیادی طور پر  ہم آہنگ  نہیں ہے۔ جب قانونی طور پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے، تو بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ  یہ عمل، قانونی بنیادوں پر انحصار کرنے کی بجائے آزادی اظہار جیسے  "ہمدردانہ" تصور  کے ساتھ سیاسی نقطہ نظر پیدا کرنے کا ارادے سے ہٹ کر نہیں  ہے۔ سویڈن اور ترکیہ سمیت 46 یورپی  ریاستوں کے فریق ہونے والے یورپی انسانی حقوق  سمجھوتے کے دسویں   آرٹیکل کے پہلے پیراگراف  میں "آزادی بیان"  کے زیر عنوان "ہر شخص  اپنے نظریات کو زیر لب لانے اور دوسروں کے سامنے پیش کرنے  کی آزادی  کا مالک ہے"  عبارت کو جگہ دی گئی ہے۔  

اس حوالے سے کیا  لوگ اپنی خواہشات کو  بیان کر سکتے ہیں؟  اگر ایسا ہے تو  کیا ان کے صرف کردہ  الفاظ کروڑوں انسانوں، حتی   کسی ایک شخص کو نقصان پہنچاتے ہیں تو کیا   ہمیں اس صورت میں بھی آزادی اظہار کا  واہ ویلا مچانا چاہیے؟

ان سوالات کا جواب دسویں آرٹیکل میں  موجود ہے۔  آزادی اظہار کی تشریح کرنے والی دسویں شق کا دوسرا پیراگراف اس حق  کے لا محدود نہ ہونے کو واضح طور پر   بیان کرتا ہے؛

"یہ آزادیاں، جن کے استعمال میں فرائض اور ذمہ داریاں شامل ہیں ...  یہ قومی سلامتی، علاقائی سالمیت یا عوامی تحفظ کو برقرار رکھنے ،  عوامی نظام کا قیام اور جرائم کی روک تھام، صحت  یا اخلاق  کو دوسروں  کی ساکھ اور حقوق کے تحفظ یا پھر  عدلیہ کے اختیارات  اور غیر جانبداری کے وجود کے لیے  قانون کی چھت   تلے لی جانی والی  بعض شرائط  حد بندی اور پابندیوں کے تابع  ہو سکتی ہیں۔ "

ٹھوس واقعات پر ان دفعات کے اطلاق کے بارے میں بھاری تعداد میں یورپی انسانی حقوق  سمجھوتے کے

  متعدد فیصلوں نے پیش منظر کو دوسروں کی ساکھ اور حقوق کے تحفظ کا معیار دے رکھا  ہے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا  ہے کہ آزادی  اظہار میں  نسل، زبان، مذہب یا جنس کی بنیاد پر دوسروں کی تذلیل کا حق شامل نہیں ہے۔ اس تناظر میں، عدالت نے آزادی اظہار کی حدود کو متعین کرتے ہوئے متناسب یا  پھر "حقوق کے مابین  توازن" کے اصولوں کا اطلاق کر رکھا ہے۔

سویڈن میں قرآن کو جلانے والا شخص  مسلم امہ  کی توہین کیے بغیر قرآن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار  مختلف طریقوں  سے کر سکتا تھا  لیکن اس نے  سب سے خطرناک طریقہ کار اپنا یا۔  انسانوں  کے حقوق اور عزت کو نقصان پہنچانے کی شکل میں   ہونے والی اس کرتوت کو غیر متناسب سمجھا جانا چاہیے۔ درحقیقت، عدالت  کہہ چکی ہے  کہ  اس بات کا تعین کرنا   لازمی ہے کہ آیا مذہب سے متعلق تبصرے توہین آمیز لہجے میں ہیں اور آیا وہ براہ راست انسانوں کو نشانہ بناتے ہیں یا  ان  کی مقدس علامتوں کے خلاف حملے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

عدالت کے اس نقطہ نظر کے تناظر میں اربوں  انسانوں کے  یقین رکھنے والے  قرآن کو جلانا،  اظہار رائے کی جائز شکل نہیں ہو سکتا۔ سویڈن کے سیاسی یا عدالتی اداروں کی طرف سے اس عدم تناسب کو نظر انداز کرنا دراصل یورپی انسانی حقوق  سمجھوتے کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب اور ضمیر کی آزادی کو منظم کرتا ہے، اور تفریق بازی  کی پابندی کو  وضع کرنے والے  یورپی انسانی حقوق  سمجھوتے کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتا ہےاور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو نقصان پہنچاتا ہے۔لہذا  سویڈش وزیر خارجہ  کے بیان کہ ان کے ملک میں " وسیع پیمانے پر آزادی اظہار" کا اطلاق ہے  جیسے  خوشگوار  لگنے والے بیانات کے ذریعے   دیگر بنیادی حقوق کو نشانہ بنانے کا حق موجود نہ ہو نے  کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

سویڈن سمیت بہت سے ممالک میں  دہشت گرد تنظیم کے طور پر شمار PKK  کی شاخوں  کی سویڈن میں  سر زد کردہ  کاروائیوں  پر چپ دھارنے  کے حوالے سے یورپی انسانی حقوق  سمجھوتے میں  وضاحتی    قرار دادیں  بھی موجود ہیں۔

ایک مقدمے میں عدالت   کا کہنا ہے کہ کسی ممنوعہ دہشت گرد تنظیم  کی طرف سے جاری کردہ اشاعتوں اور بیانات کہ جن کا مواد خطے میں تشدد کو مزید ہوا دے سکتا ہے  کو اظہار رائے کی آزادی کے تحت نہیں سمجھا جا سکتا،   اس تناظر میں عدالت نے   یہ فیصلہ کیا ہے کہ مضمون کا مواد خطے میں مزید اشتعال انگیزی کو جنم دے سکتا ہے۔

سویڈن میں اجازت دیے گئے اور دہشت گرد   تنظیم  کے حامیوں کی جانب سے پراپیگنڈا  کرنے  والی کاروائیاں  واضح طور پر" دہشت گردی کرنے  یا پھر دہشت گرد کاروائیوں کو جائز  بنانے  پر مبنی اشتعال پیدا کرنے کے خطرات " پر مبنی  ہیں۔  دہشت گرد تنظیم کی  علامتیں اور"ہم سب PKK ہیں" طرز کے بیانات  کے پیش پیش ہونے والی یہ کاروائیاں واضح طور پر   دہشت گرد اور غیرقانونی   پر تشدد واقعات کو کیمو فلاج کرنے  کی خصوصیات کی حامل ہیں۔ اگرچہ   یورپی حقوق انسانی کا سمجھوتہ  اس چیز کو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ مندرجہ بالا حالات  آزادی بیان  کی حدود سے باہر ہیں کے باوجود  اس طرز کی کاروائیوں کی اجازت  دینے  کو  آزادی اظہار سے تعبیر  نہیں کیا جا سکتا۔

سویڈن کے لیے یہ ایک غیر قانونی سیاسی انتخاب ہے کہ وہ "آزادی اظہار" کی آڑ میں ان کارروائیوں سے آنکھیں چرائے، اور دہشت گرد مشتبہ افراد یا مجرموں کو ترکیہ کے حوالے نہ  کرتے ہوئے ان کی میزبانی کرے۔



متعللقہ خبریں