تجزیہ 21

ترکیہ اور شام کے درمیان 12 سال بعد سفارتی قربت اور اس کے ممکنہ اثرات

1935873
تجزیہ 21

شام میں خانہ جنگی چھڑنے کے برس 2011 سے ابتک پہلی بار   انقرہ اور دمشق کے درمیان براہ راست   مذاکرات کا دور  شروع ہو رہا ہے۔ 

قیادت کی سطح کے ابتدائی بیانات  نسبتاً مثبت پیغامات کے بعد وزرائے دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کی ماسکو میں ملاقات ہوئی اور اب وزرائے خارجہ کی ملاقات متوقع ہے۔ جہاں روس ثالث کے کردار میں ہے، وہیں ایران اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھی اس عمل میں شامل ہونے کی

خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔۔۔

شام میں 2011 میں  بہارِعرب  کے اثرات سے  چھڑنے  والے مظاہرے اسد حکومت سے وابستہ فوجی دستوں کی مسلح مداخلت کے ساتھ قدم بہ قدم خانہ جنگی کی ماہیت اختیار کر  گئے۔ جہاں ایران اور روس جیسے ممالک نے  اسدحکومت کی حمایت کی تھی تو وہیں ترکیہ سمیت  عالمی ممالک کی  اکثریت نے شامی اپوزیشن کی حمایت کی۔

آزاد شامی فوج کے قیام کے ساتھ حکومت مخالف فوجی مزاحمت کا آغاز ہوا۔ تاہم، جیسے ہی اندرونی تنازعات نے  پراکسی جنگ کی شکل اختیار کی اس وقت  روس اور ایران نے میدان جنگ میں  شامی   حکومت کا بھر پور طریقے سے ساتھ دیا۔  عراق میں افراتفری کے اثر ات سے اپنا وجود پانے والی داعش دہشت گرد تنظیم  نے  اپنے نیٹ ورک کو شام میں بھی پھیلانا شروع  کردیا اور بنیادی طور پر اس نے  اپوزیشن کو نشانہ بنایا۔ امریکہ اور مغربی ممالک  نے داعش کے  خلاف جنگ    کو   اپنا مرکزی ہدف بناتے ہوئے شامی مخالفین    سے  تعاون کو ختم کر دیا۔   تنہا رہ جانے والے ترکیہ نے روس اور ایران کے ساتھ سہ فریقی میکانزم شروع کرتے ہوئے سلسلہ  آستانہ کو  تشکیل دیا۔ سلسلہ  آستانہ  نے اس حقیقت کو آشکار کیا کہ  جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوگا اور علاقے  میں  سیاسی حل  تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

لاکھوں انسانوں کے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے، لاکھوں کے بے گھر ہو نے اور شام کے بنیادی ڈھانچے اور عمارتوں کے وسیع پیمانے پر  منہدم  ہونے   کی حقیقت  سب کے سامنے تھی۔ دوسری طرف، امریکہ نے داعش کے خلاف  جنگ کا  فائدہ اٹھانے اور  PKK کی شامی شاخ PYD/YPG کے ساتھ فرات کے مشرق میں واقع علاقوں کو اپنے کنٹرول میں  لیتے ہوئے  خطے میں ایک دہشت گرد ریاست قائم کرنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے عسکری کاروائیوں کے ذریعے اس نام نہاد  ریاست کے خلاف ایک راہداری قائم کرتے ہوئے   اس کے بحیرہ روم   تک پہنچنے  کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں ، لیکن  اس کا خطرہ  ابھی تک موجود  ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ بالا سیاسی حل کے حصول کے لیے، دہشت گردی اور مہاجرین کے خلاف جنگ کے  دائرہ کار میں  ایک نیا  سلسلہ  شروع ہو گیا ہے۔ صدر ایردوان نے پوتن کی پیشکش کوقبول کرتے اسد حکومت کے ساتھ ملاقات کی منظوری دی، اس کے بعد وزرائے دفاع اور  خفیہ  سروس کے سربراہان نے ماسکو میں ملاقات کی۔ اب مستقبل قریب میں  خارجہ دفاتر کے حکام کی ملاقات متوقع ہے اور اس عمل میں ایران اور متحدہ عرب امارات کو شامل کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

تاہم،  اس حقیقت  کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فریقین کے درمیان سنگین  سطح  کی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ترکیہ کے بنیادی مطالبات،  ملک کی علاقائی سالمیت کو مضبوط بنانا، پی کے کے کے خلاف مشترکہ آپریشنز کو منظم کرنا، اقوام متحدہ کی حمایت سے بین الاقوامی مالیاتی وسائل پیدا کرنا، تباہ شدہ  حلب سمیت دیگر شہروں کی تعمیر نو ، اور پناہ گزینوں کی وطن  واپسی شامل ہیں۔

بلاشبہ، ان سب کا ادراک کرنے کے لیے سیاسی حل کے عمل کو جاری رکھنا، ایک نئے آئین کی تشکیل اور ایک ایسی انتظامیہ کی تشکیل  دینا چا ہیے  جس میں اپوزیشن کو ضم کیا جا سکے۔ لیکن حکومت کی طرف سے ملنے والے اشارے یہ بتاتے ہیں کہ ا سد انتظامیہ کا     مطالبات کی طرف کوئی  خاص رجحان نہیں ۔ اس  کے ساتھ ساتھ  اسد انتظامیہ کو  سنگین سطح کی مشکلات  کا سامنا  ہے، اسے اپنے پاوں  پر کھڑا رہنے میں دشواری کا سامنا  ہے ، خاصکر ملکی معیشت  مکمل طور پر  جمود کی  دہلیز پر کھڑی ہے اور  لوگوں  کو خوراک اور توانائی  کے عدم تحفظ    کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں روس  کی یوکرین میں جنگ  کے تناظر  میں  جنم پانے والے   نئے جیو پولیٹکل توازن   بھی   ترکیہ کے ہاتھوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں   اسد انتظامیہ  کو بعض مراعات  دینی پڑ سکتی ہیں۔ تا ہم  ترکیہ میں عام انتخابات کی تکمیل  کے بعد اس سلسلے  کا رخ  زیادہ واضح   ہو گا۔



متعللقہ خبریں