تجزیہ 40

شام میں ممکنہ ترکی کے عسکری آپریشن کے اشارے اور خطے میں اس کے اثرات

1837391
تجزیہ 40

صدر رجب طیب ایردوان  کے شام میں کسی نئے عسکری آپریشن کے حوالے سے بیان کے بعد شامی میدان میں دوبارہ سے گہما گہمی پیدا ہوئی ہے۔ عمومی طور پر "کیا شام میں  فوجی کاروائی کی جائیگی؟"  کے بجائے  "شام کے کس علاقے میں  آپریشن کیا جائیگا؟" سوال ایجنڈے کا حصہ بننے لگا ہے۔ تا ہم قومی سلامتی کونسل   کے  حالیہ فیصلے نے ایک  مختلف  شبیہہ  کھینچی ہے۔  کونسل نے "ہماری جنوبی سرحدوں پر فوجی  آپریشنز"  کی اصطلاح استعمال کی ہے۔  آیا کہ   اس اصطلاح کا  مفہوم کیا ہے؟

سیتا سیکیورٹی  تحقیقات کے ڈائریکٹر  پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا    مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

گزشتہ  برسوں میں شام میں یا پھر عراق میں  جاری  عسکری آپریشنز کے وقت اور مقام کے  اعتبار سے   محدود اور نمایاں  ہدف  موجود ہونے کا مشاہدہ  ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پنجہ۔ لاک   آپریشن    زاپ۔ مطینا  کے علاقے میں   دہشت گردوں کو  'بے بس کرنے' پر مبنی ہے۔  یعنی  اصل ہدف  اراضی  سے ہٹ کر زیادہ  تر دہشت گردوں کو  بے  اثر کرنے  سے تعلق رکھتا ہے ، جبکہ  شام میں  ایک حفاظتی  علاقے کی تشکیل کا ہدف پیش پیش تھا۔  دوسرے الفاظ میں   دہشت گردوں کی کاروائیوں کو ترک  سرحدوں سے دور ہٹانے اور انسانی  بنیادوں پر   شام کے اندر کسی  حفاظتی علاقے  کو قائم کرنے کا  ہدف مقرر کیا گیا۔

موجودہ مرحلے میں عراق اور شام میں کی جانے والی کارروائیوں کے اغراض و مقاصد کے تسلسل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تاہم، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایم جی کے فیصلے میں  پیش کردہ  اظہار  بیان کسی  نئے طریقہ کار  کا اشارہ دیتا ہے۔

عراق اور شام ، جن کو ترکی کے "جنوبی ہمسائے" کے طور پر کیا جاتا ہے، میں ایک   وسیع محاذ پر دہشت گردوں کی حساسیت کا مشاہدہ کرکے اسٹریٹجک اثرات اور نتائج حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس تناظر میں؛ ترکی کا سرحدی  تحفظ ، دہشت گرد  منبع کاقلع قمع، نقل مکانی کی اضافی لہروں کی روک تھام - یہاں تک کہ واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے محفوظ زونز کی توسیع جیسے مقاصد  کو مختصراً بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس  بنا  پر  ان مقاصد کو کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ، کسی بھی طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یعنی اس معاملے میں ایک لچکدار تفہیم  موجود ہے۔

وسیع محاذ پر عملی جامہ پہنائے جانے والے  آپریشن کے  معاملے میں فریق ہونےو الی مملکتوں کا رد عمل کیا ہو سکتا ہے؟  سویڈن اور فن لینڈ  کی نیٹو رکنیت  اور یوکیرین جنگ پر  بحث ہونے والے ان ایام میں ترکی  کے سلامتی  خدشات کو خاموشی سے سننے والی مغربی دنیا ہمارے سامنے ہے۔  لہذا  دوبارہ سے میک گرک کے سپرد کی گئی  شام  فائل  پر    اس مسئلے  کو حل کرنے سے اجتناب برتنے والا امریکہ    عدم   حل کے موّقف کو  جاری رکھ سکتا ہے۔ مگر جیوپولیٹیکل  خدشات کے باعث   ویسے  بھی  شام  میں ہمارے وجود پر سوالات اٹھانے والا امریکہ  30 کلو میٹر اندر  تک کے مطالبے کو حق بجانب   ٹہرانے پر  مجبور ہے۔  کیونکہ اس نے  طے پانے والے معاہدے    کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔

روسیوں کے نظریے کے مطابق  صورت حال کچھ مختلف ہے۔ PKK/PYD کو، جس کا ماسکو میں نمائندہ دفتر بھی ہے، ترکی اور امریکہ کے خلاف ایک لیور کے طور پر سمجھتا ہے۔  اس بات کی توقع  کی جاتی ہے۔ کہ شام میں اپنی گرفت  کو نہ کھونے کے  لیے روسیوں کو محدود کارروائیوں  پر آنکھیں  بند کرنی پڑیں گی۔ ، لیکن بڑے پیمانے پر آپریشن میں روسی نواز حکومت کے تسلسل پر  اسے توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔

 اس بنا پر  حلب جیسے   کلیدی شہرو کے مرکزی مقامات پر آپریشن  کی   سخت   ترین لہجے میں مخالفت کرنے والا  روس  30 کلو میٹر اندر  تک    چاہے اس کے حق میں نہ بھی ہو ، چپ دھار سکتےا ہے۔  وگرنہ   یوکیرین    پر حملوں کے باوجود  بڑی احتیاط کے ساتھ توازن  پر قائم  رکھے جانے والے  ترکی سے  اس کے تعلقات  کافی حد تک بگڑ سکتے  ہیں۔  علاوہ ازیں  دہشت گردوں  کے ترکی کے ساتھ  معاہدے کے برخلاف  30 کلو میٹر کی گہرائی  تک وجود    اور سرگرمیوں  پر بھی روس   خاموشی  کو ترجیح دے سکتا ہے۔

ادھر ایران کا معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے  ،  ایران   کی  pkk کے ساتھ   پس پردہ  بات چیت  ترکی کے  لیے خطرہ تشکیل دیتی ہے۔ اس بنا پر ایران  کو چاہیے کہ  یہ عراق اور شام کے حوالے سے اپنے بیانات اور کاروائیوں پر  توجہ مبذول  کرے۔

لب لباب:   ہم عراق اور شام میں  کہیں زیادہ فعال   سیزن  میں  داخل ہو رہے   ہیں،  بیک وقت  یا پھر  اوپر تلے    مختلف علاقوں میں   فوجی کاروائیاں موسم   گرما کے ایجنڈے کا حصہ رہیں   گی۔   اگر  روس اور امریکہ  سفارتی مذاکرات  کے ذریعے کسی نتیجے تک نہیں   پہنچتے ۔۔



متعللقہ خبریں