تجزیہ 38

فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو رکنیت کا معاملہ اور ترکی کے حق بجانب اعتراضات پر ایک جائزہ

1829793
تجزیہ 38

روس کی یوکیرین میں  جنگ کے ابتدائی اثرات توقع کے مطابق  نیٹو   پر مرتب ہوئے ہیں۔  سرد جنگ  کے بعد  وسعت کی پالیسیوں کے اعتبار سے  سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد   آزادی حاصل کرنے والے  ممالک کو اپنے  ڈھانچے میں شامل کرنے والے  نیٹو نے یوکیرین جنگ چھڑنے کے ساتھ ان پالیسیوں  پر  عمل پیرا رہنے  کے  لیے ایک نیا حربہ اپنایا۔  یوکیرین   میں مداخلت کو اس ملک  کی نیٹو سلسلہ  رکنیت کو جواز بناتے ہوئے  جائز قرار دینے کے درپے ہونے والی ماسکو انتظامیہ  کو اب فن لینڈ اور سویڈن کی رکنیت  درخواست  کے ساتھ ایک نئے چیلنج کا سامنا  ہے۔  تا ہم  اب کی بار نیٹو کی  توسیع کے عمل نے  ہمیشہ سے کہیں  زیادہ  اہمیت حاصل کر لی ہے۔

سیتا  تحقیقاتی   ڈائریکٹر  پروفیسر  ڈاکٹر  مراد  یشل طاش  کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس  اس  چیز کے دو بنیادی اسباب ہیں۔  ان میں سے پہلا عمل سویڈن اور فن لینڈ کے نیٹو کا رکن بننے کی صورت میں  روس  کا  رد عمل  ہے۔  اگر  روس نے ان دونوں ممالک کی رکنیت کو خطرے کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے   کسی  نئی چال کوچلنے کی کوشش کی  تو اس صورت میں یہ جنگ یوکیرین تک ہی محدود  نہیں رہے گی۔  تا ہم اگر  اس نے کسی قسم کے رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا اور  بلا کسی مسئلے کے  سویڈن اور فن لینڈ کی  نیٹو رکنیت  کو قبول کیا تو  اس صورت میں  روس    اپنی سرحدوں کے اندر ہی محدود  ہو جائیگا۔ ان دونوں حالات میں  روس ، ان دونوں ممالک کی نیٹو رکنیت کے ساتھ  بالٹیک  خطے  کو مزید  فوجی  قوتوں کو متعین کرنے پر مجبور ہو جائیگا۔

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہا گر  ترکی جو کہ مضبوط ترین اتحادیوں  میں سے ایک ہے، نےسویڈن اور فن لینڈ کی رکنیت پر اعتراض کیا۔ جہاں زیر بحث پالیسی اس اتحاد کی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کا خطرہ رکھتی ہےوہیں دوسری طرف، یہ ترکی اور نیٹو کے درمیان ایک نیا مسئلہ کھڑا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ انقرہ کے ہاتھ میں دونوں ممالک کی رکنیت کے عمل پر اعتراض کرنے کے لیے  قدرے  اہم وجوہات موجود  ہیں۔

سب سے پہلے، یہ واضح رہے کہ ترکی نیٹو کے توسیعی اقدام پر   مثبت ارائے رکھتا ہے ۔ اس لیے اسے فن لینڈ کے الحاق پر زیادہ اعتراض نہیں ۔ تاہم، خاص طور پر  سویڈن کے  PKK  کے  ساتھ تعلقات انقرہ کو اس ملک کے حوالے سے زیادہ محتاط پالیسی اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیونکہ سویڈن PKK کو اپنے ملک میں بڑے  آرام سے کاراوائیاں کرنے کی اجازت دیتا ہے اور شام میں PYD کو ہتھیاروں سمیت اقتصادی امداد فراہم کرتا ہے۔ سویڈن ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں PKK یورپ میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ سویڈن میں PKK کی سرگرمیوں میں ترکی کے خلاف نام نہاد سول سوسائٹی کی سرگرمیاں، منی لانڈرنگ، بھرتی اور لابنگ جیسی بہت سی غیر قانونی سرگرمیاں  شامل ہیں۔ سویڈن کی ترکی مخالف پالیسیاں صرف PKK تک محدود نہیں ہیں۔ یہ  بیک وقت  ترکی میں 15 جولائی کے بغاوت کے اقدام  میں ملوث   FETO کے ارکان کو پناہ دیے ہوئے ہے۔

لہذا انقرہ سویڈن کی ان پالیسیوں کی بنا پر   اس کی نیٹو رکنیت  کے عمل   میں بڑی احتیاط سے کام لے رہا ہے اور  یہ ترکی  کی سلامتی و حفاظت  کے  خدشات نہ رکھنے والے اس ملک    کی  رکنیت کی حمایت نہ کرنے کا  ذکر  کر رہا  ہے۔ یوکیرین جنگ   کے باعث جیو پولیٹیکل اہمیت میں اضافہ ہونے والا ترکی ،  نیٹو کے اندر اپنی   حیثیت  کو استعمال کرتے ہوئے  اس معاملے میں سویڈن کی پالیسیوں  میں تبدیلیاں  لانے  کا  مطالبہ  کرنا  ترکی کا فطری  حق ہے۔تا ہم ترکی  کا یہ موقف آیا کہ  نیٹو کے اندر کسی  نئی دراڑیں پڑنے کا  موجب بنے گا، اس سوال کا جواب  تلاش کرنے   کے لیے ہمیں  انتظار کرنا ہو گا۔



متعللقہ خبریں