تجزیہ 27

روس کے یوکیرین پر قبضے کے آپریشن کی ابتدائی ناکامی اور یوکیرینی فوج و عوام کی سخت مزاحمت پر جائزہ

1789923
تجزیہ 27

روسی  فوج نے ایک طویل مدت تک   سرحدوں پر ڈھیرے جمانے کے بعد کئی اطراف سے یوکیرین پر قبضے کی کاروائیاں  شروع کر دیں۔ روسی فوج کوتھنڈر آپریشن کا حکم دیتے ہوئے پوتن نے یہ سوچا رکھا تھا کہ وہ  کیف پر قبضہ کر تے ہوئے  کچھ ہی مدت کے اندر  جنگ ختم کر دیں گے۔ تاہم، یوکرین کی فوج کی مزاحمت، قبضے کے خلاف یوکرین کے عوام کے اتحاد اور زیلنسکی کی سیاسی قیادت سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ روس کے لیے ایک طویل اور تھکا دینے والا  عمل منتظر ہے۔ مغربی ممالک  کی جانب سے بلاک کی شکل میں  پر عزم موقف روس کو ایک بڑے اسٹریٹجک  دیوالیے کی طرف گھسیٹ رہا ہے۔

سیتا خارجہ پالیسی  امور  کے محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔۔

روسی صدر  پوتن نے یوکرین پر حملہ کر کے اپنے ملک کے لیے بہت بڑا جوا کھیلا، اور اس وقت حالات ان کے منصوبے کے  مطابق  آگے نہیں بڑھ رہے۔  پوتن نے  نے روسی فوج کو "تھنڈر آپریشن" کا حکم  دیتے وقت  کیف پر کچھ ہی عرصے میں قبضہ کر لیا جائے گا، زیلیسنسکی کی قیادت میں سیاسی قوت تباہ ہو جائے گی، کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا اور پورے ملک میں یوکرینی فوج کی مزاحمت شروع ہو جائے گی اور  ملک میں نئے اقتدار کے ان تمام عوامل کو قبول کر سکنے کے   مفروضات کو بالائے طاق رکھا۔

تاہم  جنگ کے آغاز میں ہی روسی فوج کا ’تھنڈر  آپریشن‘ ناکام ہو گیا۔ کسی روایتی قبضے کی کوشش سے ہٹ کر  محض کیف پر قبضہ کرنے کے لیے خصوصی   فورسز  آپریشن کی ماہیت  کی حامل   فوجی کاروائی  یوکیرینی فوج کے  اس کے برخلاف   حربوں  کے ساتھ ناکام رہی ۔ اس طرح   یوکیرین کی سیاسی قیادت اور کمانڈ۔  کنٹرول   ڈھانچہ زوال پذیر نہ ہوا، بلکہ اس کے برعکس  کہیں زیادہ مضبوطی حاصل کرتے ہوئے اس نے اپنے مصمم  ارادے کا مظاہرہ کیا۔  تھنڈر آپریشن کی ناکامی کے بعد  روس کے کسی بی پلان پر مطلوبہ سطح پر تیاری نہ کرنے کا مشاہدہ ہوا۔ روایتی قبضے کی ماہیت اختیار کرنے والی روسی عسکری کاروائی  کو ملک کے جنوبی اور مشرقی  علاقوں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیف کی جانب پیش رفت کرنے والے  شمالی  دستوں کے  بھی  بڑی سست روی کے ساتھ  آگے بڑھنے کا مشاہدہ ہورہا ہے۔  یہاں پر خاصکر روس کا یوکیرین پر  صحیح معنوں میں فضائی حاکمیت  قائم نہ کرسکنا،  بکتر  بند گاڑیوں  سمیت ڈراؤنز   کا  قریبی طور پر فضائی   عدم توازن ،  کمزور کمانڈ کنٹرول ڈھانچہ،   ایندھن اور خوردنی اشیا کی رسد میں  عمومی  مسائل،  روسی  فوج  کے سست روی سے پیش قدمی کرنے اور  بھاری جانی نقصان  برداشت کرنے کا موجب بنے ہیں۔  روسی  پیادوں کے   حوصلے بھی کافی پست ہونے کا  کہنا ممکن ہے۔

یہاں پر یوکیرینی فوج  اور  عوام کی   یک جان   مزاحمت   اور  غیر متوازن  طاقت کے عناصر  خاصکر  ترک مسلح ڈراؤنز  اور اینٹی ٹینک جیسے ہتھیاروں   کے اس مؤثر ہونے  کو پیش  پیش  رکھا جانا چاہیے۔  جنگ کے محض چند ایام میں  سینکڑوں روسی فوجی ہلاک ہوئے ہیں  تو  بھاری تعداد  میں یرغمال بنائے جانے والی روسی افواج ہمارے سامنے ہیں،  یہ   بکتر بند گاڑیوں  کو جال میں پھنسائے جانے والی اور بھاری نقصانات برداشت کرنے والی فوج  کے طور پر سامنے آئی  ہے۔

میدان ِ جنگ میں  حالات   روس کے حق میں نہیں جا رہے تو مغربی ممالک کاکسی بلاک کی شکل میں   کاروائی کرنا ،  بھاری پابندیوں کے ذریعے روس کو دنیا بھر میں  تنہا چھوڑا جانا،  یوکیرین پر روس کے قبضے کی کاروائیوں کے  کس طریقے سے  نتیجہ خیز بننے کے سوالات بھی  جنم پا رہے ہیں۔

فوجی، معاشی اور سیاسی نتائج کے اعتبار سے پوتن  کا یوکیرین میں  جوا انتہائی بھاری حزیمت کے ساتھ  نکتہ پذیر ہوگا اور یہ پوتن اور ان کے ملک کے نام   پر کسی سٹریٹیجک  خود کشی کی ماہیت اختیار کرے گا۔تمام تر اشارے اس حقیقت کو ہمارے سامنے لا رہے ہیں۔



متعللقہ خبریں