اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب08

"اناطولیہ میں دنیا کا پہلا تجارتی مرکز"

1624967
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب08

خریداری کے لیے آپ کونسا ذریعہ استعمال کرتے ہیں؟ کیا خریداری کے مراکز جاتےہیں یا ٹیلی فون یا انٹر نیٹ  سے اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ کی ترجیحات کا تو ہمیں علم نہیں مگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بذریعہ انٹر نیٹ  ستر فیصد لوگ خریداری کرتے ہیں۔آج  کی دنیا میں ہم  بغیر  زیب تن کیے ملبوسات ، بغیر چکھے کھانے اور پیسوں کا ہاتھ میں لمس لیے بنا ہی آرڈر دیتے ہیں۔خریداری آج کے دور میں یہ روپ اختیار کر چکی ہے جو کہ ہمیشہ سے ہی انسان کرتا چلا آیا ہے۔ ای۔ تجارت،کریڈٹ کارڈز حتی سکے کی ایجاد نہ ہوئے زمانے میں بھی  وہ خریداری کا راستہ تلاش کر ہی لیتا  تھا۔خریداری یا تجارت  انسانی تاریخ میں ابد سے موجود رہا ہے۔تو آج  اس بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان  تجارت میں کن کن مراحل سے اب تک گزر چکا ہے۔

 تجارت کا پیشہ انسانی آبا دکاری کے ساتھ  ہی شروع ہو گیا تھا۔شکاری زندگی گزارنے والے انسان نے اپنی ضروریات   کے حصول کی خاطر دیگر متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع کر دیئے لیکن،اس کے وسائل محدود تھے جس کے لیے اس نے  اپنی مختلف اشیا کا تبادلہ شروع کر دیا ۔انسان نے اس کے بعد اپنی ضروریات کے پیش نظر پیداوار بڑھانا شروع کردی اور اشیا کا  لین دین ہوا۔پہلے پہل قریبی آبادیوں کے  اور بعد میں  دور دراز کی بستیوں کےمابین اس تجارتی لین دین کا آغازہوا۔ اس طرح سے تجارت شروع ہوئی جس کا  حلقہ  اب مختلف علاقوں اور ریاستوں تک پھیل گیا۔ تجارت کے آغاز سے اب  صرف پیسہ کمانا ہی نہیں بلکہ مختلف اشیا اور زندگی کے متبادلات کی ہوس بھی  انسان میں پیدا ہو گئی۔ ابتدائی ادوار میں قلعی خشکی کے راستے بحیرہ خضر سے یونان پہنچنا شروع کی گئی۔ بعد ازاں بحیرہ بالٹک سے بازیاب شدہ امبر جنوب کی جانب  واقع بحیرہ روم  تک پہنچ جاتے تھے جبکہ نمک اور جانوروں کی کھالیں وغیرہ بھی مختلف راستوں  سے ہوتے ہوئے انسانوں تک رسائی حاصل کرنے لگیں۔آج سے چار ہزار سال قبل وسطی اناطولیہ میں  دنیا کا پہلا تجارتی مرکز قائم کیا گیا جس کا نام قل تیپے تھا۔

قل تیپے ضلع قیصری کے قریب حطیطیوں کی جانب سے آباد ایک شہر تھاجو کہ کانسی کے دور کا ایک اہم شہر تھا۔ وسطی اناطولیہ  میں موجود کوہ ارجیئس کے دامن میں بسے اس شہر کا اصل نام قانیش تھا ۔ حطیطیوں کے ساتھ ساتھ آسور قوم  کےلیے بھی یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا ۔ آسور قوم کو  اناطولیہ سے تجارتی روابط پیداکرنے میں کیا اس علاقے کی اسٹریٹجک اہمیت مقصود تھی یا دیگر عوامل بھی اس کے پس پردہ کار فرما تھے؟دراصل اس دور میں اناطولیہ میں   کانسی کی دھات وافر مقدار میں موجود تھی جو کہ کافی  عرسے تک زیر استعمال بھی رہا مگر زیادہ دیرپا بھی دھات نہیں تھی مگر  اس کےاندرونی حصے میں قلعی شامل کرنے سے یہ مضبوط بن جاتی تھی جوکہ پیتل تھا۔ اس دور میں  تمام سلطنتیں پیتل سے بنے اسلحے کی خواہش رکھتے تھے۔کانسی کی فراوانی کے باوجود اناطولیہ میں قلعی  ناپید تھی لہذا  آسور سلطنت  کی مدد درکار  رہی۔اناطولیہ کو قلعی  جبکہ آسور قوم کو کپڑے اور دیگر اشیا کی طلب تھی اس طرح  سے آسور قوم   اور اناطولیہ کے درمیان تجارت کا آغازہوا جن میں سونے چاندی کے زیورات،پیتل اور دیگر قیمتی اشیا شامل  تھیں۔ اس تجارتی گزر گاہ کو انہوں نے قاروم کا نام دیا اور اس  کے اطراف میں ایک تجارتی مرکز کی تعمیر شروع کی گئی۔ اس مضبوط اور سبک رفتار تجارتی جال کی بدولت قانیش لایا جانے والا مال واسباب یہاں سے اناطولیہ کے علاقوں تک پہنچایا جانے لگا اور نتیجتا، دنیا کا پہلا  منظم تجارتی مرکز وجود میں آیاجس کی اہمیت بعد کے ادوار میں بھی مزید بڑھ گئی۔ یہ علاقہ شاہراہ ریشم  کی گزر گاہ پر واقع ہونے کی وجہ سے   خاصیت  رکھتا تھا۔

 قل تیپے  ،قانیش اور زیریں شہر پر مشتمل دو حصوں میں  تقسیم تھا۔ قانیش میں محلات جبکہ زیریں شہر میں قاروم آبادی مقیم تھی۔ سرکاری عمارتوں،عبادت خانوں،مکانوں،تجارت خانوں اور کار خانوں کے کھنڈرات اب بھی موجود ہیں جہاں  کان کنی  اور کپڑا سازی  کا کام مشہور تھا۔
کی جانے  والی کھدائی  کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والے محلات  کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں صرف حکمرانوں کی رہائش کےلیے ہی نہیں بلکہ تجارتی سامان کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا جن کا کرایہ کافی معقول ہوتا تھا اور تاجران اپنا مال یہاں رکھوادیتے تھے۔ یہ بھی حیرت ہوتی ہے کہ ہزاروں سال پرانی ان  باتوں  کی وضاحت آج تک کیسے ممکن ہوئی  ۔

 قل تیپے  کو کاپادوکیا کے کتبوں کا نام بھی دیا جاتا ہے جہاں اناطولیہ کے پہلے تحریری کتبے موجود تھے جو کہ ہمیں اس دور کے سماجی و اقتصادی حالات کی خبر دیتے ہیں کیونکہ حطیطیوں سے قبل کی تاریخ ہمیں ان کتبوں سے معلوم ہوتی ہے۔یہی وجہ  ہے کہ انہیں یونیسکو کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
 یہاں سے کھدائی کے نتیجے میں  گیلی مٹی پر کیلوں سے کندہ ساڑھے تئیس ہزار کتبے ملے ہین جن  کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی پڑھنے کے قابل بچا تھا۔ یہ کتبے چوکور یا مستطیل شکل میں ہیں جن کی لمبائی  دو تا تین   اور دس تا بیس سینٹی میٹر کے درمیان ہے۔ان کتبوں میں سیاسی معاہدوں  سے لے کر افسران اور عوام کے درمیان کے تعلقات ،عدالتی کاغذات،شخصی مکتوبات اور وصیت نامے بھی کندہ تھے۔ان کی ایک دیگر خاصیت یہ بھی تھی کہ بعض عدالتی احکام  یا معاہدوں جیسے سرکاری اور اہم دستاویز کو لفافوں میں بند کیا گیا تھا۔ اس دور میں کاغذ کی ایجاد نہیں ہوئی تھی مگر آپ کو تعجب ہوگا کہ لفافے کیسے وجود میں آئے تو بتاتے چلیں کہ ان لفافوں کی تیاری میں بھی گیلی مٹی  کا استعمال کیا گیا تھا جنہیں خشک کرتےہوئے  لفافوں کا کام لیا جاتا تھا۔ہزاروں سال قبل اہم دستاویز کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کافی دلچسپ اور اہم  تھی۔
قل تیپے کے کتبے ہمیں ایک دیگر موضوع پر بھی معلومات فراہم کرتے ہیں  اور وہ یہ کہ چار ہزار سال قبل سماجی زندگی میں مرد وخواتین مساوی حقوق کے حامل تھے،اس دور میں اناطولیہ کی خواتین انتظامی و اقتصادی زندگی مین شانہ بشانہ تھیں۔


ہو سکتاہے کہ یہ تمام عوامل پیسہ کمانے کی کوشش کا  یا نئی جگہیں اور نئی تہذیبوں سے متعارف ہونے کا ذریعہ ہوں۔سینکڑوں میلوں کی مسافت  طے کرتےہوئے ہزاروں کلو گرام وزنی اشیا سے شاہراوں کا رخ کرنے والوں نے اناطولیہ مین دنیا کے پہلے تجارتی مرکز کی بنیاد رکھی اوراناطولیہ میں  چار ہزار سال قدیم تاریخ کا پتہ ہمیں دیا۔
آج کے اس پروگرام میں ہم نے آپ کو قانیش میں قائم دنیا کے پہلے تجارتی مرکز اور یہاں سے بازیاب ہوئے کتبوں کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ۔

 



متعللقہ خبریں