اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب05

"ٹروئے " ایک حقیقت یا ایک فسانہ

1611436
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب05

میتھولوجی اور افسانوی کہانیاں بلا کسی یقین کے ہماری توجہ حاصل کرتی ہیں۔ان افسانوں میں بعض اوقات بہادری و شجاعت کی  امثال  اور بعض  دفعہ  دیوی دیوتاوں سے مقابلہ بازی ہماری دلچسپی کا سامان کرتی ہیں۔آج  ہم اس پرگرام میں آپ کو  ایک ایسی ہی افسانوی کہانی  کا بتائیں گے جس  کا موضوع جنگ و جدل بھی تھا ،جی آج ہم آپ کو ٹروے کا حوالہ  دیں گے۔

 دنیا کا پہلا مقابلہ حسن آج سے چار ہزار سال قبل منعقد کیا گیا تھا۔ دیوتاوں کے درمیان اختلافات کے  حامل اس افسانوے کا اصل مقام چناق قلعہ اور بال کثیر کے درمیا ک قاز کوہساری علاقے میں واقع ہے  جو کہ اس وقت ترکی میں آکسیجن کی فراہمی کا بہترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
یونانی افسانوں کے  مطابق،ایک دیوتا کو اس کی  نا مناسب حرکات کی بنا پر  دیگر دیوتاوں کی ایک شادی کی تقریب میں نہیں بلایا جاتا  جس پر  یہ دیوتا جلن و حسد کے مارے  سونے کاایک سیب شادی کے مقام پر رکھدیتاہے جس پر  انتہائی حسین کی عبارت درج ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ  تین اہم دیویوں اتھینا،ہیرا اورافرودیتاکےدرمیان نفاق پیدا کردیتا ہے۔ یہ تینوں دیویاں اپنے حسین ہونے کے دعوے کے بل بوتے پر  زیوس سے رجوع کرتی ہیں جو کہ   پارس  کی ذمے داری لگا دیتا ہے۔ وہ حسین دیوی کے انتخاب کےلیے ہیرا جہانوں پر حکمرانی،اتھینا ناقبل تسخیر، اور افرودیتا نسوانی حسن  کی  شاہکار ہیلین کواپنے عشق کا احساس دلاتا ہے۔ پارس ہیلین  کے عشق کا طالب ہوتا ہے مگر مقابلہ حسن میں  افرودیتا کو اول قرار دیتا ہے۔ مقابلے کےبعد افرودیتا کی مدد سے ہیلین کو بھگا لے جاتا ہے جس پردس سالہ جنگ ٹروئے شروع ہو جاتی ہے کیونکہ ہیلین اسپارتا کے شاہ مینیلاوس کی بیوی تھی۔
 ابتدائی دور  کے مشہور راوی ہومیروس نے الیائدا کی داستان میں اس جنگ کا ذکر کیا ہے، اس کے مطابق، یہ تاریخ کا پہلا مقالہ حسن تھا جس کے بعد شرورع ہوئی جنگ ٹروئے مشرق و مغربی تاریخ ک پہلی جنگ بھی تھی۔روایت کے تحت،زیوس  اس  تباہ کن  جنگ کا  منظر کوہ قاز سے دیکھتا ہے۔

 یہ دنیا کی قدیم ترین  بہادری و شجاعت کی داستان  تھی۔ لیکن کیا اس جنگ کا حقیقت  سے کوئی واسطہ ہے یا ایک من گھڑت افسانہ ہے۔ کیا واقعی ٹروئے  کا وجود موجود تھا۔
 یہ واقعہ طویل عرصے تک تاریخ  کی کتب کا حصہ نہیں بنا جسکی وجہ سے ٹروئے کو ایک فرضی کہانی کا درجہ حاصل رہا کیونکہ الیادا کی اس داستان میں جنگ و جدل،حسد،عداوت،خونریزی اور دیگر مسائل موجود تھے لیکن ایک ایسا شخص تھا جو  کہ اس داستان کو حقیقت مانتا تھا۔ جرمن تاجر ہینریخ شیلمان نے الیادا کی داستان کا متعدد بار مطالعہ کیا اور وہ اس کی تلاش میں اناطولیہ بھی آیا۔ اس سے قبل ایک برطانوی سفارت کار  نےبھی اس جگہ پر کھدائی شروع کروائی تھی۔  ہینرخ  شلیمان ایک ماہر آثار قدیمہ نہیں تھا وہ تو بس اس قدیم شہر کو بازیاب کرتےہوئے امیر بننے کا خواب دیکھتا تھا۔ اس نے شہر کی بعض دیواریں  بازیافت کیں مگر اسے اندازہ ہو گیا کہ اس شہر کی سات تہیں ہیں جس پر کھدائی کے نتیجے میں یہ تہیں منظر عام پر آئیں۔  دو سال قبل اس شہر کی ایک مزید تہہ دریافت کی گئی جو کہ  تاریخ سے چھ سو سال قبل تک ہمیں لے گئی۔ٹروئے کا یہ شہر مختلف ادوار میں آباد کاری کا مرکز رہا تھا جس کی وجہ سے  یورپی اور مغربی اناطولیہ  میں یہ علاقہ باعث مثال بنا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹروئے  کی سات تہوں کا ذکر ہومیروس نے کیا تھا۔تاریخی نوادرات کی بازیابی کے دوران پتہ چلا کہ  یہاں حملوں اور  آتشزدگی کے واقعات کی بہتات رہی جو کہ  ٹروئے کی جنگ کو حقیقت ماننے کے لیے دلیل بھی بنے۔ٹروئے ہر زمانے میں اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل رہا،بقول ہومیروس   ہیلین کے  علاوہ  علاقے کی زرخیزی اور  محل وقوع اس شہر پر حملوں کی وجہ رہی۔
 ٹروئے کا تاریخی شہر یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے  جو کہ اناطولیہ کی ساڑھے تین ہزار سالہ پرانی تاریخ کا پتہ ہمیں دیتی ہے۔ یہاں کھدائی کا کام ایک سو پچاس سال سے مسلسل جاری ہے جہاں بیس ممالک کے ساڑھے تین سو ماہرین حصہ لے رہے ہیں جن کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔

ٹروئے کا ذکر ہوا تو یہاں  کے خزانے کا بھی بتاتے چلیں،شلیمان نے ٹروئے کے فسانے کو حقیقت بتایا لیکن  اس کے شواہد پیش کرنے میں  وہ ناکافی رہا۔ اب وہ اس داستان میں موجود ایک حکمراں کے خزانے کے درپے ہوا جو کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا امیر بننے کا خیال بھی ہو خیر اس نے اس کےلیے کافی تگو دو کی اور رقم بھی پانی کی طرح بہائی بالاخر اس کی محنت رنگ لاءی اور اسے یہاں سے  زیورات،تاج اور دیگر قیمتی طلائی اشیا ملیں۔ان اشیا کوعثمانی حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے اس نے بیرون  ملک بیچنے کا سوچا  اور اس چکر میں پہلےیونان اور بعد میں فرانس میں کوشش کی مگر رقم کے معاملےمیں سودا نہ کر پایا۔بعد میں اس نے روسیوں سے  بات کی ۔اس واقعے کو کافی  عرصہ صیغہ راز رکھا گیا مگر نوے کی دہائی میں ماسکو کے پشکین عجائب خانے کے تہہ خانے سے ان نوادرات کو سامنے لایا گیا جو کہ بعد ازاں جرمنی اور روس کے درمیان اختلاف کا بھی سبب بنے۔ یہ بیش بہا خزانہ اناطولیہ سے لوٹا گیا مگر اس  کی حقداری کا دعوی روسی اور جرمن کر رہے تھے۔آج اس خزانے کے چوبیس نودرات ترکی واپس لائے جا چکے ہیں جن کےباقی  حصے ترکی لانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

 ٹروئے صدیوں  سے انسانی ذہن کو اس کے حقیقی پس منظر کو سامنے لانے کی سوچ دیتا رہا ہے۔  ٹروجن ہارس  اس  کی ایک کڑی ہے  اس لکڑی کے گھوڑے نے جنگی رخ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایک بڑے سے لکڑی کے گھوڑے میں سپاہیوں کو چھپانے کا ذکر ہومیروس کی الیادا  میں نہیں بلکہ اودیسا نامی کہانی میں ملتا ہے۔ یونانیوں کے خیال میں ٹروئے آنے والوں کے بحری جہازوں کےلیے یہ ایک مدد فراہم کرتا تھا تو حطیطیوں کےمطابق  اسے ایک سینگ والے درندے کا نام دیا گیا تھا جو کہ جنگ میں مدد کرتا تھا۔ہزاروں سال بعد  ہومیروس  کی داستان میں موجود ٹروئے کی حقیقت سامنے آئے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

 بارہا تباہ  ہونے،زلزلوں اور دیگر جنگوں کا نشانہ بننے والے اس تاریخی   شہر ٹروئےا آج ہم نے ذکر کیا جو کہ ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تاریخ سے اناطولیہ کی اور یورپی تہذیبوں کی ترویج و ترقی میں معاون بنا۔ اس شہر میں مشرق و مغرب کے درمیان تاریخ کی  پہلی خون ریز جنگ   بھی ہوئی اورپہلا مقابلہ حسن بھی منعقد ہوا۔

 


ٹیگز: #ٹروئے

متعللقہ خبریں